کیا ‘کلین کراچی’ ممکن ہے؟

Clean Karachi

Clean Karachi

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی گزشتہ چند برسوں سے صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث کچرا منڈی بن چکا ہے۔ صوبائی اور بلدیاتی اداروں کے مابین اختیارات کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اس شہر کا ہوا ہے۔

پاکستان کے محکمہ بندرگاہ اور جہاز رانی کے وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے چند دن قبل ہونے والی بارشوں کے بعد کراچی میں صفائی کی گھمبیر صورتحال اور صوبائی اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس مہم کا اعلان کیا تھا۔

‘ کلین کراچی’ کے عنوان سے شروع کی جانے والی اس مہم کو وفاقی اور بلدیاتی اداروں کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے جس میں دس ہزار سے زائد رضاکار، سیاسی کارکنان اور عوامی نمائندے حصہ لے رہے ہیں۔ اس مہم کی نگرانی وفاقی وزیر علی زیدی کر رہے ہیں جبکہ پاکستان فوج کا ذیلی ادارہ ایف ڈبلیو او (فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن) اس مہم میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ کئی دیگر ادارے اس سے معاونت کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیرعلی زیدی نے اس مہم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مہم کے پہلے مرحلے میں 6 اضلاع میں بڑے نالوں کی صفائی کی جا رہی ہے۔ زیدی کے مطابق”دوسرے مرحلے میں شاہراہوں اور گلیوں سے کچرا اٹھایا جائے گا۔ کچرا اٹھانے کے فیز میں ڈمپنگ یارڈ خالی کرنا اور اسکولز و پارکس کے اطراف سے کچرا اٹھانا شامل ہے۔‘‘

وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ” کلین کراچی مہم کے لیے قومی خزانے سے فنڈز نہیں لیے جارہے ہیں بلکہ عوام کی جانب سے اکھٹا کیے جانے والے عطیات سے کام ہو رہا ہے۔ مہم میں ایف ڈبلیو او کی تکنیکی مدد و ہیوی مشینری کی مدد شامل ہے۔ کراچی کی کاروباری و صنعتی تنظیمیں بھی کلین کراچی مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔ ‘‘

کلین کراچی مہم میں ایف ڈبلیو او کی تکنیکی مدد و ہیوی مشینری کی مدد شامل ہے۔

علی حیدر نے کلین کراچی مہم کے حوالے سے مزید کہا کہ ”مہم میں ایک ہزار ٹریکٹر ٹرالیوں 200 سے زائد ڈمپر لوڈر سے کچرا ٹھکانے لگایا جا رہا ہے اور ہر بلدیاتی وارڈ میں رضا کار صفائی مہم کا حصہ ہیں۔ اس صفائی مہم میں ضلع غربی میں 48 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، ضلع جنوبی و شرقی میں 70 مقامات کو منتخب کیا گیا ہے۔‘‘

کلین کراچی مہم میں پیش پیش، پاکستان تحریک انصاف کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی شہزاد قریشی نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اب اس مہم کو جس حد تک ممکن ہو سکا طویل مدت تک جاری رکھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم نے جب ابتدا کی تھی تو اس کے دو فیز رکھے تھے۔ ایک عید سے پہلے اور دوسرا عید کے بعد۔ عید سے قبل کا جو منصوبہ تھا اس کے مطابق ہم نے کراچی کے 36 نالوں کی صفائی کے کام کا ٹارگٹ رکھا تھا۔ لیکن ان میں اتنا کچرا ہے کہ علی زیدی نے دو ہفتوں کا ٹارگٹ واپس لیتے ہوئے کہا کہ اب جب تک ہم پورا کراچی صاف نہیں کرلیتے، یہ مہم جاری رہے گی۔‘‘

دو کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی والے شہر میں صفائی کی صورتحال ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس تمام صورتحال کی ذمہ دار سندھ حکومت کو قرار دیا جاتا ہے جن کے ماتحت اٹھارویں ترمیم کے بعد بلدیات کا محکمہ ہے۔ مئیر کراچی وسیم اختر کے مطابق انہیں کراچی کی صفائی کے ناقص صورتحال پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم اس کی اصل ذمہ دار سندھ حکومت ہے جس کے پاس شہر کے اصل اختیارات ہیں۔

میئر کراچی وسیم اختر کہتے ہیں کہ ”کراچی میں تھوڑا بہت جتنا بھی کام ہورہا ہے وہ محدود وسائل اور انتہائی کم فنڈز سے صرف بلدیہ عظمیٰ کراچی ہی کررہی ہے، سندھ حکومت ہم سے پوچھتی ہے کہ بتائیں پیسہ کہاں گیا پہلے وہ یہ تو بتائیں کہ کراچی کا اربوں روپیہ کہاں جارہا ہے، شہر کے مقررہ فنڈز سے آدھا دیا جاتا ہے جو تنخواہوں اور پینشنز میں چلا جاتا ہے، ماہانہ 300 ارب روپے ریونیو دینے والے شہر کو 25 کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں۔‘‘

وسیا اختر کہتے ہیں کہ صورت حال کو کس طرح چلایا جا رہا ہے، وہ خود ہی جانتے ہیں اور اسی باعث وزیراعظم سے درخواست کی جن کی ہدایت پر وزیر پورٹس اینڈ شپنگ علی زیدی کے ساتھ مل کر یہ مہم شروع کی گئی ہے۔

رکن صوبائی اسمبلی شہزاد قریشی کا کہنا ہے کہ کراچی کے بگاڑ کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو برسوں سے یہاں موجود ہے۔ قریشی کے مطابق ”اس مہم کے حوالے سے سابق وزیر بلدیات سعید غنی کا رویہ بہت منفی تھا۔ وہ فوراً تصادم کے موڈ میں آجاتے تھے لیکن اب ان کی جگہ ناصر حسین شاہ آئے ہیں۔ وہ بھی ہیں تو اسی کرپٹ گورنمنٹ کا ہی حصہ لیکن وہ کچھ مصلحت پسند ہیں اس لیے ان سے کچھ امید ہے۔‘‘

کلین کراچی مہم پر عوام کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ بڑی تعداد میں شوبز شخصیات کی جانب سے اس مہم کی مکمل حمایت میں ویڈیو پیغامات جاری کیے جا رہے ہیں جبکہ کئی نجی سماجی و کاروباری ادارے اس مہم میں عطیات دیتے ہوئے اپنی شمولیت کو یقینی بنا رہے ہیں تاہم عوام اس مہم کو ماضی میں کراچی صاف کرنے کی دعوی دار دیگر مہمات کی طرح پبلسٹی مہم قرار دیتے ہیں۔