حالات اور انداز

National Assembly Commotion

National Assembly Commotion

تحریر : شاہ بانو میر

مچھلی بازار کا ذکر اکثر سنا تھا
لیکن
وہ ہوتی کیسی ہے
یہ آج پتہ چلا
قومی اسمبلی میں وزراء کا شور شرابہ سن کر سوچتی رہی
یہ عوام کے چنے ہوئے نمائیندے کیا کر رہے ہیں؟
گورنمنٹ سکول کا منظر نامہ دکھائی دیا
جہاں
استاد ہتھ چھٹ اور زبان دراز شاگردوں کے سامنے بے بس ہو
یوں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری ممبران اسمبلی کے سامنے بے بس دکھائی دئے
چیخ و پکار اور ہنگامہ آرائی
یہ عوام کیلئے کام کرنے یہاں آئے تھے
کہ
ان کی مشکلات کو کم کریں گے
افسوس ہے ان سب پر
آج عوام کا حال پہلے سے بھی بد تر ہو گیا
اور
ان امراء کی سیاست غریبوں سے شروع ہوتی ہے
اور
ووٹ لے کر کامیابی پر سیاست کا اختتام ہوجاتا ہے
کرپشن کے خلاف لڑنے والے موجودہ
بے بہا کرپشن سے آشنا نہیں ہیں
ہر ادارہ آخری سانسوں پر ہے
یہ میرا ملک ہے جو صرف ہو گا کروں گا
کے سھارے چل رہا ہے
دوسری جانب
ہمسایہ ملک کشمیر کو ہڑپنے کے بعد
اب پاکستان پر نظریں گاڑے ہوئے ہے
بھارت پاگل پن میں اتنا حواس باختہ ہے
وہ خود بھی نہیں جانتا کہ
کتنی وسعت اسے ملے کہ جس سے وہ شکم سیر ہو
وہ خود بھی اپنی بڑہتی ہوئی حرص کی حد نہیں جانتا
بڑے ملک کا صدر ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑا ہوجائے
اسے دوست گردانتے ہیں
کچھ ہی عرصہ بعد وہ
ہمارے وزیر اعظم سے زیادہ بے تکلف
بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ نظر آتے ہیں
ہمارے وزیر اعظم انکے ساتھ بیٹھ کر
بات کرنے کو ہی فخر گردانتے ہیں
اور
وہ افغانستان میں قیام امن اور فوجوں کے انخلاء کیلئے
آپکو وائٹ ہاؤس تک رسائی دیتے ہیں
آپ کو باوقار پاکستان کا وزیرا عظم دکھائی دینا تھا
وہاں جلسہ منعقد کیا گیا
جلسے سے مخاطب ہوتے ہی پی ٹی آئی کے رنگ میں رنگے ہوئے
وہی کنٹینر والے عمران خان بن گئے
وہی گھسی پٹی باتیں فرعونی باتیں
چھوڑوں گا نہیں
جیل میں ڈال دوں گا
اتنا بے خوف نہ ہوں
کہ
غضب الہی کا شکار ہوں
دوسری جانب
بھارت کا وزیر خارجہ وہاں جاتا ہے
اور
سٹلائٹ تک رسائی کے معاہدے پر دستخط کر کے
پاکستان کو نفسیاتی برتری کی مات دیتا ہے
کہ
اب جہاں چاہے جب چاہے
وہ آسمان کی بلندیوں میں موجود
کیمروں سے ہمارے کسی بھی شہر کو ہدف بنا سکتا ہے
ہم ٹھہرے وہی ہمیشہ کی طرح
لفاظی سے مطمئین ہونے والے
پاکستان نے جب سے پاک چائنہ کاریڈور کا آغاز کیا ہے
اس سے خطے کی صورتحال تو کیا بدلتی
پورا خطہ ہی بدلتا دکھائی دے رہا ہے
بظاہر
ہم سب بھارت کو تنہا ثابت کرتے ہیں
لیکن
خاموشی کے بعد بھارت کوئی نہ کوئی
ایسا دھماکہ کرتا ہے
ہمیں اسکا توڑ تلاش کرنے کے لئے بھاگ کر
دوست چائنہ کے پاس جانا پڑتا ہے
چین کا ظرف ہے ہمیں دوست کہتا ہے
حالانکہ
دوستی تو برابری کی سطح پر ہوتی ہے
کہاں چین کہاں ہم
دوستی کی ضرورت دراصل وقت کا تقاضہ ہے
جغرافیائی سیاسی اور بین القوامی سیاست کیلیۓ
سازشوں کو بُنتا ہوا بھارت
پاکستان کو تباہ کرنے کا موقعہ تلاش کر رہا ہے
دوسری جانب
پاکستان کی سیاسی تجربہ گاہ میں
اس بار نئے سیاسی چہرے لائے گئے
مگر
رموز سیاست سے اور ریاستی امور سے انجان
جن کاندھوں کو
بائیس کروڑ نفوس کا بوجھ اور ذمہ داری کا احساس ہو
وہ اکڑ کر تنک مزاجی سے نہیں حکومت کرتے
وہ بوجھ کے وزن سے جھک جاتے ہیں
اور
سنبھل سنبھل کر قدم سوچ سوچ کر اٹھاتے ہیں
کہیں
ذرا سی غلطی سے کوئی حادثہ نہ ہو جائے
یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے
اتنے بڑے بڑے معرکے بھارت سر کر گیا
اور
ہمارا بس صرف بے بس اپوزیشن پر چلتا ہے
بھارت سے اتنا ڈر اتنا خوف
ہماری جانب سے ڈائیلاگز کا اصرار ہے
وہاں سے انکار مسلسل
لیکن
اپنے ملک میں سیاسی مخالفین کے لئے
مستقل
ایک ظالم جابر فرعونی انداز اپنائے ہوئے
وہ شخص وزیر اعظم کے طور پر سامنے ہے
میدان سیاست میں کوئی حریف برداشت کر نہیں سکتے
جانتے ہیں اچھی طرح سے
ٹکراؤ کا نتیجہ خطرناک نکلے گا
یہی وجہ ہے
گزرے دنوں میں آپ اپوزیشن تھے
تب جچتا تھا کہ آپ واویلا مچائیں
لیکن
اب تو اقتدار کی مسند پر تشریف فرما ہیں
انداز وہی پرانا بد لحاظی اور نقلیں اتارنا
یہ کب شیوہ دیتا ہے کسی وزیر اعظم کو
وزیر اعظم کی پوری توجہ صرف اور صرف نواز شریف پر مرکوز ہے
نواز فوبیا نظر آتا ہے
انہی سیاسی کمزوریوں کا فائدہ بھارت نے اٹھایا
وہ کشمیر کوآسانی سے لے اڑے
ہم شور ہی مچاتے رہ گئے
ملک کے اندر الگ ہنگامی بھونچالی کیفیت طاری ہے
کسی کو سمجھ نہیں آ رہی
کہ
اصل میں کیا ہونے جا رہا ہے
کوئی ترکیب نہیں کوئی تدبیر نہیں
دس سال لگے
دہشت گردی کے بازار کو تباہ کرنے میں
اب ملک پھر سے خوف و ہراس میں مبتلا ہے
دنیا بھر کی خبریں سن لیں
کہیں ایسے آگ نہیں لگتی ٌ
جتنی بھارتی را نے
اپنے کارندوں سے پاکستان میں لگائی
کل ہی پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام کرکے
ایک بار پھر سانحہ اے پی سی کی یاد تازہ کی گئی
قاتل آزاد گھوم رہے ہیں
زمین پر موجود لوگ مسائل کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں
بنیادی ضروریات سے محروم یہ لوگ
روٹی کیلیۓ آٹا چاہتے ہیں
چائے کیلئے چینی ارزاں نرخ پر چاہتے ہیں
لیکن
وزیر اعظم بڑی سوچ رکھتا ہو تو
سوچ بھی فلک سے اوپر تک جاتی ہے
وہ روٹی کیلیۓ آٹے کو سہل بنانے کی بجائے
صوبے کے ساتھ تصادم کر کے سمندر کا رخ کرتے ہیں
ایک جزیرہ کو دوبئی بنانا چاہتے ہیں
اپنے ہر نامکمل خواب کی تعبیر مکمل کرنا چاہتا ہے
بنیاد کی اینٹ ہی ٹیڑہی رکھی گئی ہے
کیسے تعمیر ہوگا نیا پاکستان؟
اتنا بکھرا ہوا
اتنا اداس
اتنا دل گرفتہ
اتنے طوفانوں میں گھرا ہوا
یہ ملک اس حکومت سے پہلے کبھی نہیں تھا
ہم پیچھے اور پیچھے چلے گئے
بائیس کروڑ انسان اور بغیر کسی حکمت عملی کے
کن کو آزمایا گیا؟
لفظ وزیر اعظم سننے کیلئے
عجیب سیاسی تماشہ رچایا گیا
مہنگائی مار گئی اس نیم مردہ قوم کومار گئی
بزرگ مہنگی دوائیاں لینے کیلئے اولاد کے سامنے
شرمندہ کھڑے ہیں
سلسلے تو دعاؤں کے دراز کرنے تھے
بد دعاؤں کی صدائیں اور آہوں نے
ماحول میں دھندطاری کر دی
اجلے کل کے متمنی تھے ہم
پرامید تھے
چمکتے روشن پاکستان کو دیکھنے کیلیۓ
مگر
خواب یوں ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہوئے
کہ
کرچیاں
آنکھوں میں یوں چبھی
کہ
اپنے ہی لہو سے دھندلا گئیں
زمین جیسے دلدل میں بدلتی دکھائی دے رہی ہو
یہی
آج میرا ملک ہے
جہاں اپوزیشن کے پیچھے پڑنے کےعلاوہ
بتانے کیلئےحکومت کے پاس کچھ نہیں ہے
وہ تمام بڑھ چڑھ کر کی گئی باتیں ہر محاذ پر
اور
ہر موقعے پر
منہ پر آ پڑتی ہیں
جو کنٹینر کی پکنک کے دوران دھڑلے سے کی گئیں
ہر جرم جو سابقہ دور حکومت کی سزا تھی
آج انکے دور میں وہی جرم جزا کیسے بن گیا ؟
وہ چور تھے
ملک چھوڑ کر بھاگ گئے
اور
اب خود مافیا کے درمیان ہیں
برا وقت آتے ہی
انہی میں سے ایک کا جہاز اڑان بھرتا ہے
اور
مفرور ہو جاتا ہے
ایک چور ہے تو دوسرا سادھو کیسے؟
دو سال کا تفصیلی جائزہ لیں تو سمجھ آتا ہے
کہ
اس ملک کو وزیر اعظم تو مل گیا
مگر
اس وزیر اعظم کو وہ اسم اعظم نہیں مل رہا جو
پاکستان
اور
اسکے شہریوں کی زندگی کی ضمانت بن سکے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ
اسلام کو پاکستان کو سلامت رکھے
قیامت سے پہلے آنے والے فتنوں سے محفوظ رکھے
آمین
آج اسمبلی کا سیشن جو نظروں سے گزرا
موجودہ ماحول میں بحث حالات حاضرہ پر ہونی چاہیے تھی
کوئی لائحہ عمل طے ہونا چاہیے تھا
بغیر کسی نتیجے پر پہنچے
لاکھوں روپے خرچ کر کے بلایا گیا
یہ اجلاس بے معنی لگا
سوچیں
حالات کیا ہیں
اور
انداز کیا ہیں؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر