ان حالات میں گھبرانا تو بنتا ہے مگر مایوس نہ ہوں

Mask

Mask

تحریر : ارشد قریشی

دنیا کی سپر طاقتیں جن کے دسترس میں جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔ چھوٹے غریب ممالک کو ڈراتے دھمکاتے بھی ہیں۔ لوگوں کو ان کے ممالک میں گھس کر مارتے بھی ہیں۔ اتحادی افواج کے نام سے جھتے بنا کر کئی ممالک پر لشکر کشی بھی کرچکے ہیں۔ چاند پر اپنی بہادری جھنڈے بھی لہرا چکے۔ لیکن ایک ایسے جرثومے کے آگے بے بس ہیں جو اتنا چھوٹا ہے کہ انسانی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتا۔ ایک جرثومہ پوری دنیا کو بند کراتا پھر رہا ہے سب کو بے بس کر رہا ہے۔ زمین پر نہ جانے کتنے عرصے سے کہاں کہاں مظلوموں کا ناحق خون بہایا جارہا ہے۔کشمیر، فلسطین، شام، روہنگیا کی طرح نہ جانے کتنے ملکوں میں ظلم کی انتہا کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دنیا کا طویل ترین لاک ڈاؤن کیا گیا تو پوری دنیا نے چپ سادھ لی کہ ہمارے ساتھ تو نہیں ہو رہا جب ہماری باری آئے گی تو دیکھیں گے۔ اللہ اور رسول ۖ کے احکامات کی نافرمانی کی گئی۔ یہود و نصاریٰ تو کیا ان ممالک نے بھی خاموشی اختیار کرلی جنہیں امتِ مسلمہ اپنا مرکز سمجھتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشا فرماتا ہے کہ:

” اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے” سورہ النساء آیت 75

اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی نافرمانی کرنے والی قوموں پر عذاب نازل کیا جس کا زکر قرآن مجید میں موجودہے کسی قوم پر پتھر برسائے گئے، کسی پر چنگھاڑ کا، کسی پر سیلاب کا تو کسی پرشکلوں کے بگاڑ کا عذاب آیا۔ ہر قوم کو کسی نہ کسی نا فرمانی کی سزا ملی وہ تمام نافرمانیاں بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ نافرمانیاں اس وقت ہم میں موجود ہیں لیکن اُس طرح کے خطرناک عذاب سے ہم محفوظ ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب طاعون کی وبا پھوٹی تو رسول اللہۖ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین دعائیں کیں۔ ایک یہ کہ میری پوری امت کسی ایک بیماری کی وبا سے ایک ساتھ ہلاک نہ ہو۔ دوسری یہ کہ میری امت پر کوئی ایسا دشمن غالب نہ آجائے جو پوری امت کو ایک ساتھ ہلاک کردے اور تیسری یہ کہ میری امت آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو ہلاک کرکیختم نہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے دو دعائیں ہمیشہ کے لیے قبول کیں اور تیسری دعا کے لیے ارشاد فرمایا میرے محبوب یہ دعا اس لیے قبول نہیں کی کہ ہم اسی سے آپ کی امت کو آزمائش میں رکھیں گے۔

موجودہ صورتحال میں جب کورونا نامی وبا نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے سپر طاقتوں سمیت دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیکنالوجی، بڑے سے بڑا سائنسدان، طبیب سب بے بس و لاچار نظر آرہے ہیں۔ سورہ الحج کی ان آیات کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایسے ہی حالات کے بارے میں ہیں جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ :

” لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے.”۔ سورہ الحج آیت 73 تا 74.

گذشتہ دنوں وزیرِ اعظم صاحب قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر قوم سے کہہ رہے تھے کہ کورونا کی وبا پھیل رہی ہے لیکن آپ کو گھبرانا نہیں ہے۔میں معافی چاہتا ہوں وزیراعظم صاحب آپ کا حکم سر آنکھوں پر رکھا جیسے تیسے اب تک تو اس امید پر دن کاٹ لیے کہ بس آج پریشانی کی آخری رات ہے کل ایک بہتر پاکستان نظر آئے گا۔ لیکن اب اس کورونا کی وبا کی صورتحا ل میں قوم کا گھبرانا تو بنتا ہے۔ یہ قوم اس وبا سے بھی نہ گھبراتی جب اس کی دسترس میں بہترین طبی سہولیات موجود ہوتیں، ہیٹ اسٹروک سے ہزاروں ہلاکتوں کے وقت یہ قوم انتظامات دیکھ چکی ہے، اس وقت بھی لوگوں کو دفنانے کی جگہ کم پڑ گئی تھی۔ یہ قوم ملک میں کورونا وائرس ٹیسٹ کی قیمتوں، ٹیسٹ کی کٹوں کی تعداد، اسپتالوں کی تعداد، ان میں موجود وینٹی لیٹرس کی تعداد اور ملک میں موجود ادویات سے بھی بخوبی آگاہ ہے اور مشکل حالات میں بے ضمیر و بے حس منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں سے بھی خوب واقف ہے، اس لیے اب اس کا گھبرانا تو بنتا ہے۔ یہ قوم اٹلی میں برپا ہونے والی قیامت سے بھی بخوبی آگاہ ہے اس لیے گھبرانا تو بنتا ہے۔ یہ انسانی آنکھ سے بھی نا نظر آنے والا وہ جرثومہ ہے جس نے اپنے آگے دنیا کی سپر طاقتوں کو بھی گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ حالاں کہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں اور ہم ترقی پذیر کی فہرست میں بھی پیچھے ہیں اس لیے کچھ گھبراہٹ تو ہے۔ یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے بہت سے قابلِ تعریف کام کررہی ہیں ۔ حالات ایسے ہیں کہ ہم کسی بھی کوتاہی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہمارے پاس یہ وبا پھر بھی قدرِ دیر سے آئی آنا شروع ہوئی ہے ہمارے پاس کئی ممالک کی مثالیں سامنے آچکیں ہیں ہمیں ان سب کو زہن میں رکھتے ہوئے اہم فیصلے کرنے ہوں گے کسی بھی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں ہی جلد اور یقینی کامیابی ہے وبا کے پھیلنے کے بعد کے فیصلے نقصان دہ ہوتے ہیں جیسا کہ اٹلی اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

قارئین کرام بہتر جانتے ہیں سر کے بالوں میں اچانک سفیدی آنے کی وجوہات میں ایک وجہہ زہنی دباؤ اور پریشانی ہے اس بات کا ذکر اس لیے کیا کہ شاید اس بات کو بہت کم لوگوں نے محسوس کیا ہو کہ چینی صدر کے بالوں میں سفیدی اس وبا کے آنے بعد اچانک نظر آنے لگی۔ وہ دن رات منہ پر ماسک چڑھائے اپنی قوم کے ساتھ رہے۔ ایسی ایسی جگہوں کا دورہ کرکے طبی عملے کو خراج تحسین پیش کرتے رہے جو مکمل طور پر اس وبا کے نرغے میں تھے۔ پوری چینی قوم اس وبا کے خلاف ایک ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی نہ دن دیکھا نہ رات نہ جان کی پرواہ کی نہ گھر بار کی۔ اس وبا سے لڑ کر اور اسے شکست دینے کا بعد ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھنے والی پہلی قوم چینی ہے۔وجہ کیا تھی لاک ڈاؤن تاکہ انسانی جانوں کو محفوظ کیا جاسکے۔ آج پوری دنیا اس وبا کے نرغے میں ہے اور چین اپنی کامیابی کا جشن منا رہا ہے پوری چینی قوم اپنے ان ہیرو ڈاکٹر، نرسوں کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جنہوں نے ایک تاریخ رقم کردی۔

ہمارے لیے لاک ڈاؤن آسان کام نہیں بہت سے مسائل پیدا ہوں گے لیکن اگر بہترین حکمت عملی بنا لی جائے تو مسائل کم سے کم کیے جا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر آپ کو ایک ساتھ کسی دو پریشانیوں کا سامنا ہو تو بڑی پریشانی سے بچنے کے لیے چھوٹی پریشانی کو گلے لگالو۔ ہمارے نظام میں خامیاں ضرور ہیں ہماری قوم میں شعور کی کچھ کمی ضرور ہے لیکن ہم کسی بھی قوم سے کم نہیں ہمارے اندر جذبہ ہے ہمت ہے۔ میں اپنی تحریروں میں اکثر کہتا ہوں ہر کام حکومت کے کرنے کے نہیں ہوتے ہمیں بھی کرنا ہوگا خاص طور پر ان حالات میں ہر قسم اور ہر سطح کے اختلافات کو بھول کر اس وبا سے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

ان حالات میں لوگوں کو اس حوالے سے احتیاط کرنے کی آگاہی دیں، سوشل میڈیا پر کسی بھی غلط خبر کی تشہر میں ہرگز حصہ نہ لیں، کوئی بھی ایسی خبر دیکھیں جس کا آپ کو یقین ہو غلط ہے اس کی تردید کریں۔ اپنے علاقوں میں قائم چائے خانوں، ہوٹلوں اور آئسکریم کی دکانوں میں لوگوں کو بیٹھے دیکھیں تو انہیں سمجھائیں کے آپ اشیاء لے کر گھر چلے جائیں یہاں ایک ساتھ نہ بیٹھیں۔ روزآنہ کی دیہاڑی کمانے والوں کی سب مل کر ایک ایک وقت کے کھانے کا انتظام کریں۔ یا انہیں سیلانی سمیت کئی اداروں کے دسترخوانوں کا بتائیں جہاں سے وہ کھانا حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ان حالات میں طبی ماہرین مصافحہ کرنے سے منع کرتے ہیں اور علماء کرام بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں تو اس میں احتیاط کریں جذباتی نہ ہوں کیوں کہ دین اسلام نے خودکشی کو حرام قراردیا ہے۔ موجودہ حالات میں سوشل میڈیا آگاہی کا اہم اور موثر ذریعہ ہے اس کا درست استعمال کریں، سوشل میڈیا میں بہت سی ایسی پوسٹیں بھی نظر سے گذرتی ہیں جس سے لوگوں کی پریشانی اور مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اپنے ہی ملک کا تمسخر بناتے نظر آتے ہیں کہ یورپ میں لوگوں نے مفت اشیاء مختلف جگہوں پر رکھ دی ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسا سو سال تک ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایسی پوسٹیں کم علمی کا باعث ہی نظر آتی ہیں الحمداللہ ہمارے وطن میں تو یورپ سے بڑھ کر ایسے کام کیے جاتے ہیں۔ سینکڑوں ایسے ادارے ہیں جو روز آنہ کی بنیاد پر غریبوں کو کھانا کھلانے کا انتظام کرتے ہیں، بے شمار لوگ ہیں جو لوگوں کے گھروں پر مفت راشن پہنچاتے ہیں۔ اگر صرف شہر کراچی کی بات کروں تو گذشتہ رمضان میں ایک جرمن دوست آیا تو کراچی کی ہر سڑک کو دسترخوان میں تبدیل دیکھتے ہوئے کہا میں نے ایسا اپنی زندگی میں کبھی اور کہیں نہیں دیکھا یہ خدا ترس اور سخی لوگوں کا شہر ہے۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں بھی یہ قوم کس طرح اپنے بھائیوں کی مدد کو نکل آتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یاد رکھیں حکومتیں کامیاب و ناکام، اچھی،بری، لیڈران اچھے،برے، نظام اچھا،برا ہوسکتا ہے لیکن وطن ہمیشہ پیارا ا ور دل و جان سے پیارا ہوتا ہے اس کی ہمیشہ اچھی تصویر پیش کریں۔

یہاں موجودہ حالات میں ڈاکٹروں، نرسوں کا بہت اہم کردار ہوگا ان سب سے بھی درخواست ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی ہڑتال و احتجاج کو پھر کسی وقت کے لیے رکھیں ابھی صرف اپنی قوم کو بچانے کا جذبہ رکھیں۔ یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں جو میں نے کہیں پڑھا تھا غالباً ستر کی دہائی کی بات ہے ملائشیاء میں ڈاکٹر اور نرسوں کے کچھ دیرینہ مطالبات تھے جو منظور نہیں ہورہے تھے ۔ جس کے لیے ہڑتال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا لیکن یہ آسان نہیں تھا کہ ڈاکٹر ہڑتال کریں تو مریضوں کا کیا ہوگا۔ آخر حل یہ نکلا کے ڈاکٹروں کی یونین نے پوسٹ آفس کی یونین سے ملاقات کی اور مسائل سے آگاہ کیا کہ شعبہ طب کا ہڑتال کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ آپ ہمارے مطالبات کے حق میں ہڑتال کریں اور ایسا ہی ہوا طبی عملہ ڈیوٹیاں دیتا رہا اور پوسٹ آفس کی یونین نے ڈاکٹروں کے مطالبات کے حق میں ہڑتال شرو ع کردی۔

سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹیلیویژن چینلوں کو بھی آگاہی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے۔ وبا پھیلنے کی صورت میں دینِ اسلام کیا کہتا ہے اس حوالے سے علماء کرام سے گفتگو پر مبنی پروگراموں کو زیادہ سے زیادہ نشر کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کاموں میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑھ چڑھ کا حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ صاحب حیثیت لوگوں کی ایسی عمارتیں جو فی الوقت استعمال میں نہیں انہیں قرنطینہ سینٹر کے لیے عارضی طور پر وقف کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سیاسی و مذہبی جماعت نے اپنے اسپتال حکومت کو دینے کا اعلان کیا ہے یہ اچھا قدم ہے ایسا دیگر جماعتوں کو بھی کرنا چاہیے۔ کراچی کے ایکسپو سینٹر کو قرنطینہ سینٹر میں تبدیل کرنے کا اقدام بھی قابلِ تعریف ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ایم کیو ایم کے سیل کیے جانے والے مرکز نائن زیرو، خورشید بیگم ہال اور خدمت خلق کے دفاتر کو بھی قرنطینہ سینٹر کے لیے استعمال کیا جائے اور قومی جذبہ کے تحت ایم کیو ایم کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اگر چین کی طرح ہمیں بھی جلد از جلد کامیابی حاصل کرنی ہے تو سیاسی جماعتوں، حکومت ، فوج اور عوام کو ایک صفحہ پر آنا ہوگا کیوں اس وبا کا سب سے بہترین علاج ہی احتیاط ہے۔

Muhammad Arshad Qureshi

Muhammad Arshad Qureshi

تحریر : ارشد قریشی