تنازعہ کشمیر اور حب الوطنی کے تقاضے

Kashmir Protest

Kashmir Protest

تحریر : ایم سرور صدیقی

ایک بار بھارتی آرمی چیف سے کسی نے پوچھا آپ کشمیر میں عرصہ دراز سے موجود چھ لاکھ بھارتی فوج کے اخراجات کہاں سے پورے کر رہے ہیں؟ اس کے لئے تو اربوں روپے کی سالانہ ضرورت ہوتی ہو گی۔بھارتی آرمی چیف مسکرا کے بولا کہ جی ہاں،آپ نے درست فرمایا کہ اتنی بڑی فورس کے لئے سالانہ اربوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سے زیادہ تر حصہ پاکستان برداشت رہا ہے۔ رپورٹر بہت حیران ہوا کہ”پاکستان”؟ مگر وہ کیسے؟ آرمی چیف نے جواب دیا کہ بھارت میں ہم ایک فلم سے 20 سے 30 فیصد ٹیکس حاصل کرتے ہیں۔لیکن جب وہی فلم پاکستان میں جاتی ہے تو ہم ٹیکس کی کٹوتی 50 فیصد کر دیتے ہیں اور ہم سال میں کئی فلمیں ریلیز کرتے ہیں۔ اگر فلم 10 کروڑ دے تو 5 کروڑ ہمیں ٹیکس آ جاتا ہے۔جس سے ہم اپنی فوج کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اور اسی طرح باقی اخراجات پاکستان کے لوگ انڈین چینل دیکھ کر پورے کرتے ہیں۔۔

محترم پاکستانیو! کیا ہم کشمیری بہنوں اور بھائیوں کے خیر خواہ ہیں؟ کیا ہم ان کے خواب اور نعرے” کشمیر بنے گا پاکستان” کے معیار اور وزن پر پورا اترتے ہیں؟ اگر ہم کشمیری بہنوں اور بھائیوں کی تکلیف کو سمجھتے ہیں تو ہم بھارت کے گانے اور فلموں کے ذریعے بھارت کو اربوں روپے کی سپورٹ کر رہے ہیں اس طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی مسلمان بہنوں، بھائیوں اور ہمارے بڑوں کے قتل ِ عام میں برابرکے شریک ہیں؟ سوچیں، غور کریں اور کشمیری مسلمانوںکا کرب محسوس کریں اب صورت ِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر تمام سنیما کچھاکچھ بھرے ہوتے ہیں انڈین چینلز ہمارے پسندیدہ بن چکے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا رسم و رواج ،کلچر اور روایات بری طرح متاثر ہورہی ہیں اور ادھر کشمیر میں کئی شہیدوں کی میتوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کے جنازے پڑھے جا رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں بھارتی فلموں کی کہانیاں تو یاد رہتی ہیں لیکن کشمیر میں ہونے والے بھارتی ظلم و ستم یاد نہیں۔ میرے پیارے پاکستانیوں آج کے بعد انڈیا کی فلمیں اور ان کے چینلز کا بائیکاٹ کرکے کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اپنی محبت کا ثبوت دیں۔ اس پیغام کو آگے ضرور پھیلائیں۔ ایک سچا پاکستانی ہونے کے ناطے اس پیغام کو پاکستان کے کونے کونے میں پہنچانا آپکی ذمہ داری ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ جب ہم ایسے واقعات پڑھتے ہیں تو وقتی طور پر کچھ درد دل میں محسوس ہوتاہے پھر اپنے ٹی وی یا سینما سکرین کے سامنے بیٹھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں ہمارے وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں جوکہا سچ کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 2 ہفتوںسے کرفیو نافذ ہے، وہاں فوج کی اضافی نفری تعینات ہے، رابطوں کے تمام ذرائع پر پابندی ہے، مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے موجود بھارتی فوج اور مزید نفری تعینات کی گئی، اب مقبوضہ کشمیر میںآر ایس ایس کے غنڈے بھیجے جا رہے ہیں، نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی مثال ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کیا دنیا خاموشی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلمانوں کی سربرانیکا (بوسنیا) جیسا قتل عام اور نسل کشی کو دیکھے گی؟ انہوں نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ اگر مقبوضہ وادی میں ایسا کرنے کی اجازت دی گئی تو اس کے اثرات پوری مسلم دنیا پر پڑیں گے جس کا شدید رد عمل سامنے آئے گا جبکہ انتہا پسندانہ اور تشدد کی سوچ پروان چڑھے گی۔

بہرحال یہ بات خوش آئندہے کہ عالمی سطح پر بھارت کو بڑی سفارتی کا شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کشمیر پر بھارتی قبضے کا معاملہ 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچ گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کیے جانے اور مقبوضہ وادی میں کرفیو کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے خط لکھا تھا۔ بھارت نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلائے جانے سے روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پچاس سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ سلامتی کونسل کشمیر کے معاملے پر اجلاس منعقد کر رہی ہے جو عالمی سطح پر بھارت کی بڑی شکست ہے۔

دوسری جانب روس نے بھی بھارت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ روسی نائب مندوب دمیتری پولیانسکی نے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روس کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس کی مخالفت نہیں کر رہا۔ اقوام عالم نے اگر کشمیر کے مسئلہ کو سنجیدگی سے نہ لیا تو مقبوضہ وادی میں کوئی انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔مولانا محمد منشائ چشتی نے مزید کہا کہ پاکستانی قوم ‘ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ‘تمام ادارے اور فوج ایک پیج پر ہیں بھارت نے کوئی مس ایڈوانچر کیا تو حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گا۔ انہوںنے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا جانا ایک بہترین اقدام ہے مگر یہ محض دکھاوا نہیں ہونا چاہئے’ رکن ممالک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے مشرقی تیمور کی طرح کشمیر میں رائے شماری کی اعلان کریں اور بھارت کو مظالم سے روکنے کیلئے کردار اداکریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مسلمان کا توکل اپنے پررب پر ہوتا ہے پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو 22 کروڑ عوام فوج کے شانہ بشانہ لڑیں گے’ ملکی سالمیت کے تحفظ کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔

حقیقتاًہمیں سفارتی میدان میں بہت بڑی کامیابی ملی ہے کروڑوں مسلمان او آئی سی کی طرف دیکھ رہے ہیں، بھارت اس وقت بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہے، نریندر مودی خطے کیلئے خطرہ بنتا جا رہا ہے، بھارت میں بہت بڑا طبقہ مودی کی سوچ سے متنفر دکھائی دے رہا ہے، بھارتی مظالم سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں، مقبوضہ کشمیر میں اشیائے خورونوش کی شدید قلت ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل بلیک آئوٹ ہے ہمارا راستہ امن کا راستہ ہے، بھارت نے کشمیر کو جیل خانہ میں تبدیل کردیا ہے مودی نے الیکشن جیتنے کے لئے کشیدگی کو ہوا دی، پوری قوم پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ بھارتی حکومت نے متنازعہ علاقہ کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا ہے جس سے جنوبی ایشیاء کے دو ہمسایہ ممالک میں حالات کی کشیدگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ پاکستان تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کے حق میں ہے عالمی برادری کے سامنے کشمیریوں کی نسل کشی کی سازش بے نقاب ہوچکی ہے دنیانریندر مودی کی سوچ کی حقیقت سے آگاہ ہو گئی ہے۔ انشاء اللہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے لور بے گناہ شہیدوں کا خون ضرور رنگ لائے گا اور کشمیری مسلمان بھارت کے پنجہ ٔ استبدادسے ضرور آزادہوگا اس کے لئے ہمیں کشمیری مسلمانوںسے اظہار ِ یکجہتی کے لئے مزید سرگرم ِ عمل رہناہوگا یہ حب الوطنی کا تقاضا ہے۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی