کورونا کے بہانے، کئی ملکوں میں بنیادی حقوق کی پامالی

Protest

Protest

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کی پامالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ انکشاف اٹلس آف سول سوسائٹی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے ہوا ہے۔

‘اٹلس آف سول سوسائٹی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کورونا وبا کے دور میں بنیادی آزادی پر پابندیوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ فلپائن کی قیدیوں سے بھری جیلیں، زمبابوے میں صحافیوں کی گرفتاریاں، میکسیکو میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر کی زندگیوں کو لاحق خطرات۔ یہ تمام عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے پردے میں بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کے حق کو کس طرح پامال کیا گیا۔

یہ رپورٹ تنظیم ‘بریڈ فار دا ورلڈ‘ اور ‘سیویکوس‘ کے اشتراک اور دنیا کے 200 ممالک کی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے تعاون سے شائع ہوئی ہے۔

تنظیم ‘ بریڈ فار دا ورلڈ‘ کی چیئرپرسن ڈاگمر پروئن کا کہنا ہے کہ 2019 ء مظاہروں اور احتجاج کا سال تھا، جس کے دوران دنیا بھر میں لوگ سڑکوں پر نکلے اور کسی نا کسی سلسلے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

عوام کے متحرک ہونے کا یہ سلسلہ 2020ء تک جاری رہا۔ مثال کے طور پر امریکا اور بیلا روس میں۔ یہاں تک کہ کورونا وبا کی روک تھام کے لیے مختلف حکومتوں کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کے خلاف وہاں کے عوام نے مالی امداد میں اضافے اور بدعنوانی میں کمی کا مطالبہ سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے کیا۔ تاہم ڈاگمر پروئن کے مطابق، ”اس کے جواب میں بہت سے ممالک کی حکومتوں نے ان مظاہروں اور احتجاج کی وجوہات دور کرنے کی بجائے مظاہرین پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔‘‘

جرمنی کا شمار ایک کھلے معاشرے میں ہوتا ہے جہاں سول سوسائٹی تنظیمیں کسی پابندی کا شکار نہیں اور معلومات تک رسائی بھی آسانی سے ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں جن 196 ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ان میں سے محض 42 ممالک کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہاں کھلا معاشرہ پایا جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ یورپی یونین کی تمام 27 رکن ریاستیں اس زمرے میں نہیں آتیں۔

کورونا وبا کا دور اس اعتبار سے بھی غیر معمولی ثابت ہو رہا ہے کہ اس دوران مختلف معاشروں کی ایسی کمزوریاں ایسے کھل کر سامنے آئی ہیں گویا ان معاشروں کو ‘میگنایفائنگ گلاس سے دیکھا جا رہا ہو۔ تنظیم ‘ بریڈ فار دا ورلڈ‘ کی انسانی حقوق اور امن سے متعلق امور کے شعبے کی سربراہ زلکے فائفر کہتی ہیں،” کورونا وبا نے میں مختلف سیاسی نظاموں اور حکومتوں کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے اور بہت سی جگہوں پر مسائل سے نمٹنے کے لیے وسیع تر اختیارات کے استعمال کا رجحان جس طرح افشا ہوا ہے وہ شہریوں کو خوفزدہ کرنے کا سبب بنا ہے۔ مثال کے طور پر فلپائن میں ایک لاکھ باشندوں کو کورونا کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے کے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ال سلواڈور میں 17 ہزار افراد کو من مانی کے الزام میں قرنطینہ مراکز میں ڈال دیا گیا تھا۔ان میں ایک انسانی حقوق کیے لیے سرگرم ایکٹیوسٹ بھی شامل تھا جسے کووڈ ٹیسٹ سے پہلے ہی تین ہفتے حراست میں رکھا گیا۔احتجاج کے دوران صحافیوں پر حملے، یونیسکو کو تشویش

دنیا بھر کی توجہ سمیٹنے والا واقعہ جس میں امریکی پولیس کے تشدد کی کہانی پنہاں تھی۔

قریب 400 صحافیوں کے ایک سروے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ کورونا وبا کے ضمن میں پولیس کے تشدد میں اضافہ ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ ‘ اٹلس آف سول سوسائٹی‘ کے مطابق کچھ ممالک میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کروانے کے لیے پولیس نے تشدد کا استعمال کیا۔ 59 ممالک میں کورونا کی روک تھام کے دوران شہریوں کو پولیس کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ دریں اثناء کولمبیا میں قریب 50 غیر سرکاری آرگنائیزیشنز نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں پولیس کے پُر تشدد ہونے کی شکایت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ادارہ تیزی سے عسکریت پسندی کی طرف جا رہا ہے۔

بہت سے مملک میں کورونا کی وبا کے خلاف اقدامات کو جمہوریت کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے نیز یہاں صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر کو زیر دباؤ لائے جانے کے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔