کروونا ایس او پیز تعلیمی اداروں تک محدود کیوں؟

School

School

تحریر : عقیل خان

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مترادف تقریباً سات ماہ بعد سکولوں کی رونقیں بحال ہوئی۔ بچوں سے لیکر ٹیچرز تک نے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ پڑھنے والوںکو پڑھنے اور پڑھانے والوں کو پڑھانے کا دوبارہ موقع ملا مگر ان سب سے زیادہ بچوں کے والدین نے نہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا بلکہ شائد بہت سے والدین نے نوافل بھی ادا کی ہونگی کہ سکول کھلے اور ان کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ کوئی بھی والدین اپنے بچوں سے تنگ نہیں ہوتا مگر ان کی شرارتوں سے تنگ ضرورآجاتا ہے ۔اسی لیے بہت سے والدین بچوں کی شرارتوں سے اور بہت سے والدین بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے بہت زیادہ ڈسڑب تھے۔ میں نے خود بہت سے والدین کوپرائیویٹ سکول مالکان اور ٹیچرز کو یہ پوچھتے ہوئے دیکھا ہے کہ سکول کب کھلے گا؟ بہت سے والدین کو شکایت کرتے دکھا ہے کہ ان کے بچے آوارہ ہوگئے ہیں تو کسی نے کہا کہ ان کے بچے گھر میں رہ کر اردوبھول گئے ہیں اور کسی نے کہا کہ سارادن گلیوں میں آوارہ پھر کر بچوں کے رنگ کالے اور پڑھائی نہ ہونے کی وجہ سے نکمے ہوگئے ہیں۔

ہمارے تعلیم کے ناخداؤں کو بچوں اور اساتذہ کی بہت فکر تھی اسی لیے سب سے اہم ادارے کو سب سے آخر میں کھولا ۔وزارت تعلیم کو اس فکر سے نکل آنا چاہئیے کہ انہیں بچوں اور اساتذہ کی جانیں عزیز ہیں۔یہ اقدامات ہر گز ایسے نہیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ بچے کرونا سے محفوظ رہیں گے ۔ یہ اقدامات تو صرف دل کو تسلی دینے کے لیے کافی ہیں ۔آپ کے دیے گیے ایس او پیز سکول کی حدتک ہیں تو پھر کوئی فائدہ نہیں کیونکہ بچہ کروونا باہر سے لیکر آئیں گے اوراگر سکول میں ٹیسٹ ہو اور وہ مثبت آگیا تو سکول سیل اوراس سکول کی بدنامی الگ ہوگی۔ بچے سکول آنے سے پہلے اور سکول کی عمارت سے نکلنے کے بعد کن حالات میں ہیں اگر آپ یہ جان لیں تو آپ سب ایس او پیز بھول جائیں گے۔19 گھنٹے یہ بچے پانچ گھنٹوں کا ڈسپلن اور ایس او پیز کا ڈرامہ کس طرح چٹکی میں ناکام بنا رہے ہیںسب کو معلوم ہے۔

محکمہ تعلیم رسمی اور روائتی کارروائیوں کے ذریعے بچوں اور اساتذہ کا وقت برباد کر رہے ہیں۔بہت سے سکولزمیںچھ فٹ کے فاصلے اور ڈیوائیڈڈ کلاسز کا سرے سے وجود ہی نہیں صرف کاغذی کاروائی کی ہوئی ہے۔میں نے ایک نہیں کئی شہروں میں دیکھا ہے گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولز کی چھٹی کے وقت سکول گیٹ کے باہر والدین جو اپنے بچوں کو لینے کے لیے آتے ہیں وہ کونسے اور کیسے ایس او پیز کو فالو کررہے ہوتے ہیں؟ وہ خود ایک درخت یا ایک دکان کے چھوٹے سے سایے میںچھ چھ افراد کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک والد اپنی دو بچیوں کو ایک موٹرسائیکل پر چھوڑنے اور لینے کے لیے کونسے ایس او پیز کو پورا کررہا ہوتا ہے؟

زمینی حقائق کچھ اور ہیں اور آپ کے حقائق کچھ اور۔ تین سے چار بچے موٹر سائیکل پہ چپک کر یا گاڑیوں میں ٹھونس کر جب سکول آتے ہیں تو اس وقت فاصلے کے ایس او پیز کہا چلے جاتے ہیں؟جناب والا اوسط سو بچہ ایک ہی باتھ روم کی ٹونٹی اور لوٹا استعمال کر کے کیا کرونا سے بچ جائے گا؟پانچ گھنٹے بچے سکول میں ایس او پیز پر اساتذہ کی ذمہ داری سے یا خوف سے عمل تو کرسکتے ہیں مگر باقی کے 19گھنٹے جو سکول سے باہر ہیں ان میں وہ کس طرح کروونا سے محفوظ ہونگے؟

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کرونا ہمارے اردگرد ہے تو پھر تمام سماجی جگہوں کو اسی طرح مانیٹر کریں جس طرح آپ نے پورے صوبے کی مشینری تمام تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کے کام پہ لگا رکھی ہے۔آج سڑکوں ، بازاروں، ہوٹلوں ، سیر وتفریحی کے مقامات سمیت دفاتر میں کوئی ایس او پیز نظرنہیں آرہے۔پچھلے دنوں ایک موٹر سائیکل پر سوار ہوکر دو لوگ سکول چیک کرتے پھر رہے تھے کوئی پوچھے کہ کیا ان کے لیے فاصلے کے ایس او پیز نہیں ہوتے۔ گاڑی میں چھ چھ ملازمین بیٹھ کر جب سکولوں کی وزٹ کے لیے نکلتے ہیں تو کیا سکول کے بچوں کے ذہین میں یہ سوال نہیں اٹھتا ہوگا کہ کیا کروونا ہمارا ہی دشمن ہے جو ہم پر اتنی سختی کی جارہی ہیں؟جب بچے اپنے بڑوں کے ساتھ بازار یا سیروتفریحی کے لیے جاتے ہیںاور وہاں نہ کوئی ماسک لگاتا ہے نہ کوئی فاصلہ رکھتا ہے تو پھران کے ذہن میں اپنے سکولز اور اساتذہ کے بارے میں جو سوال اٹھ رہے ہوتے ہیں ان کا جوا ب ہے کسی کے پاس؟

محکمہ صحت ذرائع کے مطابق 80 فیصد سے زائد شہریوں نے ایس اوپیز پرعملدرآمد چھوڑ دیا ہے۔ 75 فیصد شہری ماسک ہی نہیں پہنتے جبکہ 85 فیصد سماجی فاصلہ اور ہینڈ سینی ٹائزر استعمال کرنا بھول چکے۔حجام، بیوٹی سیلونز، بازار، شاپنگ مالز اور دفاتر میں ایس اوپیز پرعملدرآمد نہیں ہو رہا۔ انتظامیہ اور محکمہ صحت کی جانب سے ایس اوپیز کی خلاف ورزی پر ایکشن نہیں لیا جارہا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کورونا ختم ہوچکا، دوبارہ آئے گا تو دیکھا جائے گا ۔ جب سمجھدار لوگوں کایہ رحجان ہے تو پھر معصوم بچوں پر اتنا ظلم کیوں؟

خدارا ! کروونا سے نجات کے لیے اقدامات ضرور کرو مگر معصوم بچوں پر اتنی سختی نہ کراؤ کہ سکول انتظامیہ اپنی جان چھڑانے کے لیے بچوں پرایس او پیز کی تلوار لٹکائے کھڑے رہیں۔ زیادہ نہیں تو پرائمری کلاسز کو ایس او پیز میں رعایت ضرور دیں کیونکہ ہر وقت ماسک لگا نا چھوٹوے بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان