کورونا: جرمنی میں ایسٹر پر اجتماعات پر پابندی برقرار

Easter in Germany

Easter in Germany

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کی دو عدالتوں نے اس عرضی کو خارج کر دیا ہے جس میں کورونا وائرس کی روک تھام کے مدنظر مذہبی اجتماعات پر عائد پابندیوں کو چیلنج کرتے ہوئے ایسٹر کے موقع پر چرچ میں اجتماعات کی اجازت مانگی گئی تھی۔

کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر جرمن حکومت نے کسی بھی طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم مسیحیوں کے کیتھولک مکتب فکر کا ایک گروپ ایسٹر کے موقع پر چرچ میں اجتماعات کے لیے مصر تھا۔ اور اس سلسلے میں اس نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ لیکن برلن اور ہیس کی عدالتوں نے ان کی درخواستیں خارج کر دیں۔

عدالت کے اس فیصلے کے بعد کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ، دونوں مکتب فکر کے مذہبی پیشواؤں نے پھر اپیل کیا ہے کہ وبا کے پیش نظر وسط مارچ سے جو حکومتی پابندیاں عائد ہیں، وہ ایسٹر کے موقع پر بھی جاری رہیں گی۔ مسیحی مذہبی رہنما اجتماعات سے گریز کرنے اور ذمے دار شہری کے طور پرگھروں میں رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔

پروٹیسٹنٹ مکتب فکر کے مذہبی پیشوا ہیئنرک بیڈفورڈ اسٹروم کا کہنا تھا، ”انفیکشن کی رفتار کم کر کے زندگیوں کو بچانا، ”رہنما اصول ہے۔” قدامت پرست کیتھولک مکتب فکر سے وابستہ بشپ روڈولف وڈے ہولزانے پابندیوں کی مخالفت کرنے والوں سے سوال پوچھا کہ کیا وہ ” سچ میں وائرس کے پھیلاؤ کو تقویت بخشنا چاہتے ہیں؟ چرچ کی سروسز کو ٹی وی پر نشر کیا جائے، براہ راست نشر کیا جائے یا پھر فون پر سنوایا جائے، ایسٹر کے پیغام کو تو نہیں روکا جاسکتا۔”

اس سے قبل منگل سات اپریل کو برلن کی انتظامی عدالت نے اس سلسلے میں کیتھولک مکتب فکر سے وابستہ ایک شخص کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں ایسٹر کے موقع پر پچاس افراد پر مبنی اجتماع کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے سلسلے میں برلن میں جو بندشیں عائد کی گئی ہیں اس سے مذہبی آزادی کی مخالفت نہیں ہوتی ہے۔ ہیس اور سیکسونی میں بھی انتظامی عدالتوں نے وبا کی صورت میں عائد پابندیوں کو جائز ٹھہراتے ہوئے اس نوعیت کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

ینی امور کے ماہر ہاسٹ ڈرائر نے ڈسلڈروف نے ایک مقامی اخبار سے بات چیت میں کہا تھا کہ چرچ میں اجتماعی عبادات پر پابندی لگانا کافی مشکل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ایسی صورت میں چرچ میں سروس کے دوران لوگوں میں واضح فاصلہ رکھنے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے افراد کو اس موقع پر روحانی مدد کی ضرورت ہے اور آن لائن سروسز اس کا متبادل نہیں ہوسکتیں۔

ٹیلی ویزن کے سابق میزبان پروٹیسٹنٹ مسیحی پیٹر ہین نے پروٹسٹنٹ رہنما وں پر سیکولر حکام کی تابعداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ”شراب کی دکانیں کھلی ہیں لیکن چرچ بند ہیں۔ آپ اس کی وضاحت کس کس کو پیش کریں گے۔”

لیکن ہیس میں نساؤ کے ایک مقامی پروٹیٹسنٹ رہنما والکر یانگ نے پیٹر ہین کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ بتاتے ہوئے کہا کہ چرچ میں لوگ دکان کے بہ نسبت زیادہ دیر تک ٹھہرتے ہیں۔