کورونا ویکسین کی تقسیم، امیر اور غریب ممالک میں واضح تفریق

Corona Vaccine

Corona Vaccine

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا ویکسین کی تقسیم کے دوران امیر اور غریب ممالک کے درمیان واضح فرق دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا ویکسین کی اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ تاہم غریب ممالک کو ویکسین کے حصول کے لیے طویل راستہ طے کرنا ہو گا۔

COVAX نامی پیش رفت اس لیے شروع کی گئی تھی کہ کووڈ 19 کے خلاف ویکسین کی پوری دنیا میں رسائی کو یقینی بنایا جا سکے تاہم کورونا ویکسین کی محض 2 ارب خوراکیں آئندہ سال خریدنے کے لیے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ مزید برآں ویکسین کی ترسیل کے حوالے سے اب تک کسی حتمی سودے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے اور غریب ممالک کے پاس اس کے لیے مالی وسائل کی کمی پائی جاتی ہے۔

کورونا وائرس جہاں دنیا بھر میں 1.6 ملین سے زائد انسانوں کو نگل چُکا ہے وہاں اس کے خلاف جنگ اور مزید انسانوں کو موت کے خطرات سے بچانے کے لیے ویکسینیشن کی فراہمی کے عمل نے امیر اور غریب ممالک کے مابین عدم مساوات کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اگرچہ کمزور معیشتوں کے حامل ممالک بھی کورونا کی وبا سے شدید متاثر ہوئے اور غریب ممالک میں صحت کے ناقص نظام کے سبب کورونا کے شکار ہو کر مرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی ہے، تب بھی کووڈ 19 کے خلاف ویکسینیشن کے اولین حقدار امیر ملکوں کے عوام ہی نظر آ رہے ہیں۔

COVAX عالمی ادارہ صحت کی پیش قدمی ہے جس میں ویکسین الائنس GAVI اور CEPI کا ایک گلوبل الحاق دنیا بھر سے متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کے خلاف جنگ کے لیے سرگرم ہے۔ اس پیش رفت کا ایک اہم مقصد ایسی صورتحال پیدا ہونے سے روکنا ہے جس میں وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین کے حصول میں بین الاقوامی سطح پر ایک بھگدڑ مچے اور وبا کے پھیلاؤ کی صورتحال مزید خراب ہو جائے۔ کیونکہ اس صورتحال میں عدم مساوات کو مزید تقویت ملے گی۔

مختلف ممالک اپنی استطاعت کے مطابق متعدی بیماری کے سد باب کے لیے ادوایات کا تجربہ کر رہے ہیں۔

چند ماہرین ان امکانات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا کے خلاف ویکسین کی امیر ممالک میں فراہمی منصفانہ اور اشتراک کے ساتھ ہو گی۔ فی الحال ویکسین محدود مقدار میں تیار ہوئی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں سے چند نے اس ویکسین کی تیاری پر سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ اس ویکسین کی تیاری کے لیے ہونے والی تحقیق پر ان ممالک نے ٹیکس دہندگان کے پیسے بھی لگائے ہیں اس لیے ان کی حکومتوں پر شدید دباؤ ہے کہ وہ سب سے پہلے ویکسین خریدیں اور عوام کو فراہم کریں۔ اُدھر COVAX پر دستخط کرنے کے باوجود غریب ممالک کو خطرات لاحق ہیں کہ ان تک ویکسین نہیں پہنچ پائے گی۔

ورلڈ اکنامک فورم میں عالمی صحت کے شعبے کے سربراہ آرناؤد برنائرٹ کے بقول،” یہ ایک سادہ سا ریاضی کا اصول ہے۔‘‘ امید ہے کہ ادویات سازی کی صنعت کُل قریب 12 بلین ویکسین ڈوزز آئندہ برس یعنی 2021 ء میں تیار کرے گی جس میں سے 9 بلین پہلے ہی امیر ممالک کے لیے مختص کر دی گئی ہیں۔ COVAX کی طرف سے کافی مقدار میں ویکسین ڈوزز محفوظ نہیں کیے گئے ہیں اس لیے ایسی صورتحال سامنے آ سکتی ہے کہ اسے ویکسین تاخیر سے ملیں۔

سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا نامی کمپنی 200 ملین ویکسین ڈوزز تیار کرے گی اور ممکنہ طور پر اسی ویکسین کا ایک بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک کو مہیا کیا جائے گا۔ اس کمپنی کے سی ای او آدر پوناوالا نے کہا ہے کہ ان کی کمپنی کو آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسترا زینیکا اور NOVOVAX کی طرف سے 100 ملین ویکسین ڈوزز کےآرڈرز مل چُکے ہیں۔ ایسو سی ایٹیڈ پریس کو بیان دیتے ہوئے پوناوالا کا کہنا تھا،” تحریری طور پر ہمارے پاس فی الحال اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اگر انہیں مزید ویکسین چاہیے تو انہیں مزید آرڈرز دینا ہوں گے۔‘‘ آدر پوناوالا نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کی کمپنی کی اولین ترجیح بھارت کے لیے ویکسین شاٹس بنانا ہے اور بھارتی حکومت نے کہا ہے کہ انہیں کم از کم 300 ملین ویکسین کی ضرورت ہو گی۔تاہم کمپنی کے سی ای او آدر پوناوالا کے بقول،”بھارت کی طرف سے اتنے بڑے آرڈرز کے سبب خطے کے دیگر ممالک کو ویکسین کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘