کرونا وائرس اور چین کی تباہی میں ہارپ ٹیکنالوجی کے استعمال کی بازگشت

 Corona Virus in China

Corona Virus in China

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ

گزشتہ چند دنوں میں کرونا وائرس سے چین میں آنے والی تباہی کی خبر دنیا بھر میں عام ہیں ہر ملک میں یہ خوف عام ہو چکا ہے کہ چین سے آنے والا سامان اور انسان ہمارے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔ چائنیز کرونا وائرس جس کو (2019-nCoV) کا نام دیا گیا ہے، اِس کا مطلب 2019ء میں آنے والا منفرد کرونا وائرس ہے، اِس جراثیم یا وائرس نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔اس وائرس کی جو علامات بتائی جاتی ہیں وہ ہر عام اور صحت مند انسان میں پائی جاتی ہیں۔

دوسری جانب کروناوائرس اور چین کی تباہی میں ہارپ ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر بھی عام شر وع ہوچکا ہے،اور یہ ہرملک میں زیر بحث بھی ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2000ء سے اب تک ایشیا کے مختلف خظوں میں آنے والے سیلاب، طوفان اور غیر معمولی موسمی تبدیلیاں تمام سوالیہ نشان ہیں اور ان کے پیچھے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کا قیاس بہر کیف موجود ہے۔ جیسے افغانستان میں 2002ء میں آنے والا زلزلہ، پاکستان میں 2005ء میں آنے والا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب، جس میں 70ارب ڈالر کا نقصان ہوا، فطری نہیں تھے۔ چین میں 2008ء اور 2010ء میں آنے والے زلزلے، جاپان میں 2011ء میں آنے والے سونامی اور زلزلے بھی مصنوعی نظر آتے ہیں۔لیکن کافی حد تک یہ سازش بے نقاب ہوچکی ہے۔مجموعی طور پر ایشیا آج ابھرتی طاقت ہے جو مستقبل میں امریکہ سمیت پورے یورپ کے لئے ہر میدان میں چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، اس لئے ایشیا کی ابھرتی طاقتوں کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور ایشیا میں امریکی طفیلی ریاستوں کو اپنے ہاتھ سے نکلنے سے روکنے کے لئے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی آراء بہرحال موجود ہیں۔

بات ہارپ ٹیکنالوجی کی تو یہ امریکی ریاست الاسکا میں چلنے والے ایک ریسرچ پروجیکٹ کا نام ہے جو 23 سے 35 ایکڑ رقبے پر لگائے گئے 180ٹاورز اور انٹینوں پر مشتمل ہے، جس سے 3بلین واٹ طاقتور Electromagnetic waves پیدا کی جا سکتی ہیں۔ ہارپ (HAARP) انگلش کے الفاظ ”ہائی فریکوئنسی ایکٹیو ایرورل ریسرچ پروگرام”High Frequency Active Auroral Research Program“کا مخفف ہے۔ اس پروجیکٹ کی بنیاد 1993ء میں رکھی گئی، جس کے مقاصد میں مصنوعی موسمی تبدیلیوں، زمینی ذخائر کی تلاش اور وائرلیس کمونیکیشن کی ٹیکنالوجی کا حصول تھا۔ سائنس کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی نئی سائنسی ایجاد کو رجسٹر کروانا اور اس کی بنیادی تشریح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس پروجیکٹ سے متعلق کچھ کامیابیوں کو بین الاقوامی سائنسی Patents میں 1995ء سے 2000ء کے درمیان رجسٹر کروایا گیا، جن کی تعداد تقریباََ 12ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پر انسانیت اور انسانی معاشروں کے لئے فائدہ مند اور محفوظ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اس موضوع میں مل سکے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کی بنیادی سائنس کیا ہے؟

1۔ زمین کے اوپر فضا کی مختلف تہوں میں سے ایک تہہ کا نام Ionosphere ہے جس کی موٹائی سطح زمین سے 70سے 300کلو میٹر تک ہے، جو بے شمارمثبت اور منفی آئنز پر مشتمل ہے۔ الاسکا میں موجود اس پروجیکٹ کے کیمپ سے مختلف پاور اور فریکوئنسی کی Electromagnetic Wavesکو بڑے Antennasکی مدد سے Ionosphere میں بھیجا جاتا ہے، جس سے وہاں بہت زیادہ مصنوعی حدت پیدا کر کے موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ اس کی مدد سے ایک طرف کسی خطے کو بارشوں سے بالکل محروم کر کے بنجر بنایا جا سکتا ہے اور دوسری طرف کسی خطے میں حد سے زیادہ بارشوں سے مصنوعی سیلاب بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔

2۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کے مختلف خطوں میں زیر زمین ذخائر کی موجود گی اور ان کی مقدار کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مختلف فریکوئنسی اور پاور کیElectromagnetic waves زمین میں موجود Tectonic plates سے ٹکرا ئی جاتی ہیں اور ٹکرا کر واپس آنے والی ویوز سے مطلوبہ معلومات اخذ کی جاتی ہیں۔ تیل، گیس اور دوسرے زیر زمین ذخائر کی تلاش کے لئے بھیجی جانے والی ویوز کی انرجی مختلف رکھی جاتی ہے، اس لئے ان ویوز کی مدد سے زیرِ زمین ایسی جگہ، جہاں زلزلے کے امکانات پہلے سے پائے جاتے ہیں: اُن کو Trigger کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں اس ٹیکنالوجی سے زلزلے پیدا کرنے کے حوالے سے سائنسدانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

3۔ اس پروجیکٹ کی مدد سے Ionosphereکا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس سے Extremely Low Frequency (ELF)ویوز پیدا کر کے اُن کا رُخ زمین کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ ای ایل ایف ویوز کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود پھیلتی نہیں ہیں (یعنی ان کا Divergenceبہت کم ہوتا ہے)اور اپنی توانائی ضائع نہیں کرتیں۔ اس لئے ان کی مدد سے انرجی کی بہت بڑی مقدار کو زمین یا فضا کے کچھ حصے پر فوکس کر کے منتقل کر نے سے بہت زیادہ درجہ حرارت کا پلازمہ (مادہ کی چوتھی شکل جو بہت زیادہ آئنز اور الیکٹرانز پر مشتمل ہوتی ہے) پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جنگلوں میں آگ لگائی جا سکتی ہے، اڑتے جہاز کے انجن کو آگ لگا کر گرایا جا سکتا ہے اور گلیشئیرز کو مصنوعی طور پر پگھلا کر سیلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

4۔ انسانی ذہن اور دل بہت کم فریکوئنسی کی ویوز پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اس ٹیکنالوجی سے Indirectطریقے سے ELFویوز پیدا کی جا سکتی ہیں، اس لئے Biophysists کا کہنا ہے کہ اگر زمین یا زمین کی فضا میں بہت بڑے پیمانے پر ان ویوز کا استعمال کیا گیا تو وہ انسانی ذہن اور دماغ کو متاثر کر سکتی ہیں، جس کے نتائج انسانی صحت کے لئے خطرناک ثابت ہوں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسانیت کو کیا ممکنہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ اس پروجیکٹ کو امریکی ڈیفنس اتھارٹی کی مالی معاونت حاصل ہے، اس لئے اس پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی کا اسی ادارے کے پاس ہونا بھی یقینی ہے جو اس کا استعمال اپنے کسی بھی بین الاقوامی سیاسی، معاشی اور ملٹری جارحانہ مقصد کے حصول کے لئے کر سکتے ہیں۔

بین الاقوامی سائنسی Patentsکی روشنی میں سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ اس ٹیکنالوجی سے غیر معمولی موسمی تبدیلیاں پیدا کر کے شدید بارشیں، طوفان اور سیلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں، لیکن آیا اس ٹیکنالوجی سے زلزلے پیدا کئے جا سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس میں سائنسدانوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے، کیونکہ سائنسدانوں کی یہ رائے سائنسی Patentsکی روشنی میں ہے، اس لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ریسرچ کے بہت زیادہ خفیہ کام (Classified work)کو ان Patents کا حصہ نہ بنایا گیا ہو اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ Classified Research workکو کوئی بھی ادارہ Scientific Journals میں Publish کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن میرے خیال میں اگر کسی جگہ زلزلے کے زیرزمین امکانات پہلے سے موجود ہیں تو اس کو قبل از وقت اس ٹیکنالوجی کی مدد سے Triggerضرور کیا جا سکتا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی انسانیت کی مشترکہ میراث ہے، یعنی ان کی ترقی سے انسانیت کو بحیثیت مجموعی فائدہ پہنچنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک محدود طبقہ تو اس سے فائدہ اٹھائے اور باقی اکثریتی طبقے کے لئے وہ عذاب ثابت ہو۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سرپرست امریکہ کی انسان دشمن پالیسیوں میں جنونیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے ایٹم بم کا استعمال، پھر ہارپ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والا وہ واحد ملک ہے۔ امریکہ کوپہلے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کے لئے UNOسے کوئی Resolutionپاس کروانا پڑتی ہے یا دوسرے ممالک کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے اسے اس تکلیف دہ عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ دنیا کو بے خبر رکھتے ہوئے کسی بھی ملک کے خلاف اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تمام Parametersکا اندازہ تو شائد نہیں، لیکن اس پروجیکٹ کے خطرات کا علم اکثر ممالک کو ہے۔ اسی سلسلے میں یورپی یونین ایک قرارداد پاس کر چکی ہے کہ امریکہ اس پروجیکٹ پرمزید کام اس وقت تک روک دے، جب تک اس کے انسانی صحت اور ماحول پر اثرات کا مکمل جائزہ نہ لے لیا جائے۔ اسی طرح چین، روس، ایران اور وینزویلا بھی اس پروجیکٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ