کرونا وائرس اور ترقی پذیر ممالک کے مسائل؟

 Coronavirus

Coronavirus

تحریر : الیاس محمد حسین

وزیراعظم عمران خان نے سچ کہا ہے کہ کرونا وبا کی صورتحال سے بحالی، پائیدار ترقیاتی مقاصد پر عملدرآمد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے سہ جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کو مناسب فنڈز کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی معیشت اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہو گی جب تک تمام ممالک پائیدار ترقیاتی مقاصد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کیلئے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں کرتے اس کے لئے مناسب اقدام یہ ہونا چاہیے کہ نہ صرف ترقی پذیر ممالک سے غیر قانونی سرمایہ کی منتقلی کو روکا جانا چاہئے بلکہ ان ممالک کے چوری شدہ اثاثہ جات غیر مشروط طور پر واپس کئے جائیں عالمی برادری کو زیادہ مساویانہ، مستحکم اور خوشحال دنیا کی تشکیل کیلئے تنازعات کے پرامن و منصفانہ حل اور عالمی تعاون کو فروغ دینے پر توجہ بھی مرکوز کرنا چاہئے وزیراعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا تھااللہ تعالی کے فضل سے پاکستان دیگر ممالک کی نسبت زیادہ خوش قسمت رہا ہے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اور کم مراعات یافتہ لوگوں پر توجہ کی بدولت ہم وائرس پر بڑی حد تک قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں ہم نے لوگوں کی قیمتی جانیں اور ان کا روزگار بچایا۔ بدقسمتی سے کووڈ 19کی عالمی اور علاقائی وبا سے وہ عدم مساوات سامنے آئی جو اقوام میں موجود ہے۔

عالمی معیشت اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہو گی جب تک تمام ممالک بشمول امیر اور غریب پائیدار ترقیاتی مقاصد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کیلئے سرمایہ کاری میں اضافہ اور تیزی نہیں لاتے۔ دنیا ترقی پذیر ممالک سمیت ویکسین کی تیاری میں تیزی لائے اور اس کی جلد تقسیم کو یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ ہی بڑے ممالک کی جانب سے کیا جانے والا تعاون بھی قابل تعریف ہے ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فوری طور پر جو اقدامات کرنے ہیں ان میں فوری اور اشد ضروری اقدامات میں حقوق ملیکت دانش سے استثنی خواہ یہ عارضی ہو، لائسنس کے تحت ویکسین کی تیاری، کوویکس سہولت کی فنڈنگ اور ترقی پذیر ممالک کی طرف سے ویکسین کی فیئر پرائسز پر خریداری کیلئے گرانٹس اور قرضہ کی فراہمی شامل ہیںجبکہ کووڈ کی بحالی، پائیدار ترقیاتی مقاصد پر عملدرآمد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے تہرے چیلنج سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کیلئے مناسب فنڈز کو متحرک کیا جانا چاہئے۔

ان تینوں چیلنجوں کیلئے باہم تعاون کی ضرورت ہے جسے پہلے سے بہتر کی تعمیر کے نصب العین کے ساتھ بروئے کار لانا چاہئے اس کے برعکس زیادہ آمدن والے ممالک نے اپنی معیشت کو تقویت دینے کے لئے 17 ٹریلین ڈالر کی معاونت فراہم کی گئی دوسری طرف ترقی پذیر ممالک کو بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقیاتی مقاصد پر عملدرآمد کیلئے کم ازکم 4.3 ٹریلین ڈالر درکار ہیں۔ بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک اب تک اس رقم کے 5 فیصد سے بھی کم فنڈز تک رسائی حاصل کرسکے ہیں ۔ بہرحال موجودہ حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے وزیراعظم عمران خان گزشتہ سال ایک نئے آئی ایم ایف سپیشل ڈرائنگ رائٹس کے قیام کی تجویز دے چکے ہیں جس کا مقصد موثر طور پر ڈویلپمنٹ فنانسنگ کو فروغ دینا ہے۔ نئے ایس ڈی آرز میں 650 ارب ڈالر پیدا کرنے کے معاہدہ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

اگرچہ غریب ترین ممالک کیلئے رکھے گئے اضافی ذخائر درکار بھاری مالیاتی معاونت کے قریب نہیں ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر جنرل کی اس تجویز کی فوری طور پر منظوری دی جائے کہ زیادہ آمدن والے ممالک اپنے آئی ایم ایف کے غیراستعمال شدہ کوٹہ جات کا ایک حصہ رضاکارانہ طور پر ازسرنو وقف کریں۔ وزیراعظم کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر ترقیاتی بینکوں اور اداروں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں پائیدار ترقیاتی مقاصد اور پروگراموں کی فنانس کیلئے کم از کم 150 ارب ڈالر دوبارہ مختص کئے جائیں گے اس کے لئے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کیلئے مالیاتی گنجائش اور ڈویلپمنٹ فنانس کی فراہمی کیلئے مہنگے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ ایک اور ضروری عنصر ہے۔ قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کیلئے کوئی عمومی فریم ورک، طویل بات چیت پر مبنی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس طرح قرضوں کے ریلیف کا مقصد ختم ہوجائے گا۔ ان نازک حالات میں ترقی پذیر ممالک کیلئے او ڈی اے کمٹمنٹ 0.7 فیصد اور 50 ارب ڈالر کے ایڈوانس آئی ڈی اے۔20 ونڈو سمیت رعایتی اور گرانٹ فنانس کے وعدوں کو لازمی پورا کیا جائے چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح گلاسگو میں سی او پی۔26 کی کامیابی سمیت ماحولیاتی فنانس کے 100 ارب ڈالر سالانہ کی فراہمی کیلئے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کمٹمنٹ کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ماحولیاتی فنانس کی مجموعی کمٹمنٹ اب ایک ٹریلین ڈالر سے زائد ہے۔ ماحولیاتی فنانسنگ کیلئے کم ازکم 50 فیصد رقم موافقت کے لئے مختص کر دینی چاہئے۔ پاکستان کے شاندار منصوبے جن میں ری چارچ انیشیٹیو اور 10 ارب ٹری سونامی پراجیکٹ شامل ہیں، اس قسم کی معاونت سے بہت زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اور بین الاقوامی ترقیاتی حکمت ہائے عملی میں ان شعبوں کو ہدف بنایا جانا چاہئیں جن سے ترقی پذیر ممالک تینوں چیلنجوں سے نمٹ سکیں جن میں کووڈ بحالی، انسانی ترقی، سماجی تحفظ، متبادل توانائی، پائیدار زراعت، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹلائزیشن شامل ہیں چونکہ پائیدار انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری جو ایس ڈی جیز کے 92 فیصد پر اثر رکھتی ہے ترقیاتی حکمت ہائے عملی کا مرکزی حصہ ہونا چاہئے، اقوام متحدہ اپنی منفرد اجتماعی قوت کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری بروئے کار لانے کیلئے کثیرالجہتی سٹیک ہولڈرز ڈائیلاگ کا آغاز کریں عالمی برادری نازک حالات کااحساس کرتے ہوئے مالیاتی اور تجارتی آرکیٹیکچر کے ڈھانچہ جاتی اور منظم نقائص کو جامع اور فوری طور پر حل کریںبین الاقوامی تجارتی نظام تمام ترقی پذیر ممالک کو عالمی منڈیوں تک مساویانہ اور ترجیح رسائی فراہم کی جائے اس کے ساتھ ساتھ بعض بڑی معیشتوں کی جانب سے ڈبلیو ٹی او معاہدوں کی خلاف ورزیوں کرتے ہوئے اٹھائے گئے تحفظاتی اقدامات کا خاتمہ کیا جا ناضروری ہے تاکہ ترقی پذیراور غریب ممالک میں غربت کی شرح کم ہونے میں مدد مل سکے۔

Ilyas Mohmmad Hussain

Ilyas Mohmmad Hussain

تحریر : الیاس محمد حسین