کرونا، عید اور المناک فضائی حادثہ

PIA Plane Crash

PIA Plane Crash

تحریر : ملک عاطف عطاء

اس بار عید الفطر ماضی کی عیدوں کی نسبت بہت ہی مختلف تھی عید کی آمد ایسے موقع پر ہوئی جب پوری دنیا پہلے سے ہی کرونا وائرس کی لپیٹ میں تھی اور کرونا نہ جانے کتنی انسانی جانوں کو نگل چکا تھا، پوری دنیا کے لوگ سماجی و معاشی مسائل میں مبتلا تھے، ہر ملک میں ماہرین نے کرونا وبا سے بچاءو کے لیئے اپنے حالات کے مطابق پالیسیاں بنائیں ، جن کے ذریعے وبا کے پھیلاءو کو روکنے میں مدد تو ملی لیکن اس کے ساتھ ساتھ صنعت و زرعی پیداوار کی بندش سے معیشت کو زوردار جھٹکا لگا ، غریب ممالک پر تو جو بیتی وہ ایک طرف لیکن اس کرونا وائرس کے پھیلاءو کو روکنے کے لیئے کیے جانے والے اقدامات نے دنیا کے امیر ترین ممالک کو بھی شدید معاشی جھٹکا دیا، جس سے پوری دنیا میں بھوک و افلاس کے ایک نئے مسئلے نے جنم لے لیا جس سے بچنے کے لیئے بہت سارے لوگوں نے موت کو گلے لگالیا، عالمی تنظیم برائے صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا ایک لمبے عرصے تک چل سکتا ہے اور اس کی ویکسین بنانے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اس لئے اب پوری دنیا کے ممالک کو اپنے اپنے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جس سے نہ صرف کرونا وائرس کے پھیلاءو کو روکنے میں مدد ملے بلکہ معاشی بدحالی اور بھوک و افلاس سے بھی عوام کو بچایا جا سکے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے موجودہ حالات میں ویسے ہی زندگی کی سرگرمیاں منجمند تھیں رمضان المبار ک میں بھی سماجی فاصلوں کے ساتھ عبادات کا اہتمام کیا گیا، کرونا وائرس نے جہاں زندگیوں کی رونق کو مدہم کردیا تھاوہیں شہر قائد کے علاقے ماڈل کالونی میں ہونے والے المناک فضائی حادثے نے پوری قوم کو سوگوارکردیا، عید سے دو دن قبل اپنے پیاروں کے ساتھ عیدمنانے کے لیئے پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی پرواز کے ذریعے لاہور سے کراچی کا سفر کرنے وا لوں کا زمین پر اترنے سے محض چند لمحے قبل لقمہ اجل بن جانا ایک ایسا سانحہ تھا جو کہ قیامت صغری سے کم نہیں ، قومی ایئر لائنز کا طیارہ گنجان آبادی میں گرا جس کی وجہ سے متعدد مکانات بھی متاثر ہوئے اور اس ناگہانی آفت سے مکین بھی بری طرح متاثر ہوئے، جن گھروں کے لوگ اس حادثے میں شہید ہوئے وہ تو غمگین اور افسردہ تھے ہی لیکن اس حادثے نے پوری قوم کو غمگین اور عید کی خوشیوں کو بھی ماند کردیا، موت ایک اٹل حقیقت ہے اور کوئی بھی مسلمان اس بات سے انکاری نہیں ہو سکتا اور جس انسان کی جتنی سانسیں لکھ دی گئی ہیں ان میں ایک سیکنڈ کا اضافہ یا کمی ممکن نہیں اور اگر قدرت کی مرضی ہوتو ایسے حادثات میں بھی لوگ بچ جاتے ہیں جیسے اس طیارہ حادثہ میں دو لوگ زندہ سلامت بچ گئے۔

طیارہ حادثے نے جہاں کرونا وائرس سے بیزار اور تنگ عوام کو مزید پریشان کردیا وہیں عید کی رہی سہی خوشی کو بھی بالکل گہنا دیا، لوگ جو پہلے ہی مشکلات کا شکار تھے اور معاشی طور پر بے حال تھے اس المنا ک حادثے نے پوری قوم میں ایک اور غم کی لہر دوڑا دی ہ میں ہر حال میں صبر و استقامت کا درس دیا جاتاہے اس لیئے میری بھی یہی دعا ہے کہ اللہ پاک طیارہ حادثہ میں شہید ہونے والوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاکرے اور لواحقین کو صبر جمیل دے ، جو لوگ چلے گئے وہ تو واپس نہیں آ سکتے لیکن یہ بھی دیکھنا بہت ضروری ہے قومی ایئر لائن کا طیارہ حادثہ کا شکار کیوں ہوا۔

کیا یہ حادثہ قدرتی طور پر تکنیکی خرابی کی وجہ سے پیش آیا یا اس حادثے کے پیچھے سسٹم کے نقاءص اور فراءض کی انجام دہی میں سستی کا عمل شامل ہے،پی آئی اے کے چیئر مین کی پریس کانفرنس کے مطابق طیارے کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں تھی اور وزیراعظم کی جانب سے طیارہ حادثے کی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل بھی خوش آئند ہے لیکن اس حادثے سے قبل بھی طیارہ حادثے ہوئے ہیں جس پر حکومتوں نے تحقیقاتی کمیٹیاں بنائیں اور متعلقہ اداروں کے سربراہان نے حادثا ت رونما ہونے کے بعد پریس کا نفرنسوں میں آکر یہی رٹا رٹایا جملہ ادا کیا کہ تحقیقات ہورہی ہیں اور رپورٹ میں ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا اور غفلت برتنے والوں کو سخت سزا د ی جائے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ، بہر حال اب دیکھنا یہی ہے کہ اس حادثے کی رپورٹ کب تک مکمل ہوتی اور کیا اس رپورٹ میں غفلت کا مرتکب ہونے والے ذمہ داران کو سزا دی جاتی ہے یا نہیں یہاں یہ بات بھی قابل غورہے کہ ایئر پورٹ کے قریب میں اتنی بلند وبانگ عمارات کیسے تعمیرہوئیں ، ایئر پورٹ کے نزدیک اتنی بڑی بڑی بلڈنگز بنانے کی اجازت کس نے دی۔

کیونکہ حالیہ طیارہ حادثہ ایک بلند عمارت کی ٹینکی سے ٹکرانے کی وجہ سے پیش آیا ایئر پورٹ کے اتنے قریب بستیاں ہوابازی کے اصولوں کے بالکل خلاف ہیں اس کے باوجود ایئر پورٹ کے قریب آبادی اور بلند بانگ عمارتیں انتظامیہ کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حادثے کی تحقیقات کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں ، کیا تحریک انصاف بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح تحقیقاتی کمیٹیاں بنا کر بری الذمہ ہوجائے گی یا پھر ریاست مدینہ کی طرز پر حکومت بنانے کی دعویدار تحریک انصاف صاف اور شفاف تحقیقات کروا کے حقائق قوم کے سامنے لائے گی یا پھر یہ بھی معاملہ دیگر حادثات و سانحات کی طرح کمیٹی کی رپورٹ اور سرد خانے کی نظر ہوجائے گا، آخر میں صرف اتناکہوں گا کہ خد ا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو جب تک ایک عام آدمی اس نظام کی تبدیلی کے لیئے آگے نہیں بڑھے گا تب تک نہ جانے کتنے معصوم لوگ ایسے ہی لقمہ اجل بنتے رہیں گے اور قوم چندمفادپرستوں کے ہاتھوں کھیلونا بنے رہیں گے۔ ختم شد

Malik Atif

Malik Atif

تحریر : ملک عاطف عطاء