کرونا ۔۔ خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : سید عارف سعید بخاری

کرونا وائرس کے بارے میں شروع دن سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کوئی قدرتی بیماری یا وباء نہیں ایک وائرس ہے جو کہ ازخود تیار کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے دنیا بھر میں پھیلا دیا گیا۔اس وائرس نے دنیا کے 129ممالک کے عوام کو نقصان پہنچااور لاکھوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے ۔اس بیماری کو وبا ء کا نام دے کر اس قدر پروپیگنڈہ کیا گیا کہ دنیا بھر کے لوگ خصوصاً ہر پاکستانی خود کو کرونا کا مریض سمجھنے لگا ۔وباء کیاہوتی ہے۔۔؟اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ وبا ء کی صورت سڑکوں اور گلی محلوں میں لاشیں گرتی ہیں،خدانخواستہ کسی وباء کے حملے کی صورت بسا اوقات کسی کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل پاتا اور نہ ہی مریض کو ہسپتال لے جانے کی نوبت آتی ہے۔جہاں تک وباء کا تعلق ہے تو جب کوئی200سال قبل کشمیر سمیت مختلف ممالک میں” طاعون”نامی وباء پھیلی تو اس وقت پورے پورے گاؤں کی آبادیاں موت کے منہ میں چلی گئی تھیں۔لوگ موت کے خوف سے دیگر ممالک کو ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے ۔حضرت علی کا فرمان ہے کہ ”کوئی بھی وباء 70دن بعد خود بخود ختم ہو جاتی ہے ”۔لیکن کرونا وائرس کو ”وباء ” کہنے والی قوتیں آپ کے اس فرمان کی نفی کرتے ہوئے بضد ہیں کہ یہ وباء ہمارے ساتھ ساتھ چلے گی۔

کرونا وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے لیکن کم از کم پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں معمولی بخار، کھانسی، سردرد اور گلے میں خراش کی صورت بھی ہسپتال جانے والوں کو فوری طور پر ”کرونا ” کا مریض بنا دینے کے ساتھ ساتھ متاثرہ شخص اور لواحقین کے ساتھ بھی ڈاکٹرز اور نرسز کا رویہ ناقابل برداشت تک نامناسب ہونے کی شکایات عام ہیں ۔اچھا معالج وہ ہوتا ہے کہ جس کی محبت و شفقت اور مریض کی دل جوئی سے بیمار کاآدھا مرض دور ہو جاتا ہے ۔اس کے برعکس اس صدی کے مسیحاؤں کی شناخت بن چکی ہے کہ جس نے موت کی وادی میں اترنا ہو وہ ہسپتال کا رخ کرے یاڈاکٹر کے پاس جائے ۔ طبی مسائل سے عدم آشنائی یعنی کہ” ناخواندگی ”بھی خاص طور سے مریض کی صحت کو مزید خراب کرنے کا سبب بن رہی ہے اور شعبہ ء صحت سے وابستہ افراد کی اکثریت عوام کی اس کم علمی اور جہالت سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھ رہے ۔

کورنا وائرس کے بارے میں ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ یہ ابتدائی سطح پر اگرانسان کے اندر داخل ہو جائے تو متاثرہ شخص کے کھانسنے یا چھینکنے سے یہ کسی بھی دوسرے انسان کو منتقل ہو سکتا ہے ، لیکن یہ وائرس جب کسی انسان میں پیدا ہو تا ہے تو احتیاط اور مناسب علاج سے اگلے8 سے10 دنوں میںیہ”ٹوٹ پھوٹ” جاتا ہے جس کے بعد متاثرہ انسان کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی یہ کسی دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔اس لئے اس بارے کوئی خوف اپنے دل و دماغ پر سوار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔یہ بات بھی ہمیں ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ اگرکرونا متاثرہ انسان کا اگلے8 سے15دنوں تک دوبارہ ٹیسٹ کروایا بھی جائے تو موجودہ مشینوں میں ”منفی” رزلٹ دکھانے کی اہلیت نہ ہونے کی بناء پراس کی ٹیسٹ رپورٹ باربار Positveہی آئے گی۔البتہ اگلے18سے 20 دن کے بعد اگر اسی مریض کا ٹیسٹ کروایا جائے تو وہNegativeآئے گا ۔جدید مشینیں بھی ”ٹوٹے ہوئے وائرس ”کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں ،یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت تک دستیاب مشینوں میں Negativeنہ بناتے کی خامی کی وجہ سے رزلٹ Positve آرہا ہے جس سے لوگ مزید الجھن اورذہنی تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے20 دن کے بعد کورنا کا ا ثر زائل ہونے کی وجہ سے بندہ نارمل زندگی گذار سکتا ہے ۔ایک اہم بات جس سے آگاہی ضروری ہے کہ کرونا وائرس ہر انسان میں کسی نہ کسی صورت موجود ہے ،لیکن بلا ضرورت ٹیسٹ کروا کر اپنے لئے پریشانی مول لینا کوئی قابل تعریف بات نہیں ،اس لئے جب تک کوئی واضح علامات ظاہر نہ ہوں ہمیں کروناکا خوف اپنے اوپر طاری نہیں کر لینا چاہئے ۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت نے اپنی ناقص حکمت عملی اور ”مسیحاؤں ”سمیت مفاد پرست مافیا کے پروپیگنڈے نے پہلے ”کرونا”وائرس کانہ ختم ہونے والا خوف پیدا کرکے جس طرح لوگوں کو ذہنی مریض بنایا ہے ۔اب اس کا ازالہ کرنا حکومت اور ”مسیحاؤں ” کے بس میںبھی نہیں رہا ۔کہا جا رہا ہے کہ چائنا میں اس مرض پر قابو پا لیا گیاہے اسی طرح نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈ آرڈن نے بھی اپنی دانشمندانہ حکمت عملی اور عوام کے تعاون سے اپنے ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پا کر ”کرونا فری ملک ” کا اعزاز حاصل کرلیا ہے ۔ادھر سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اٹلی کی حکومت نے عالمی ادارہ صحت کے احکامات کو نظر اندازکرکے اپنے عوام کو اس موذی مرض سے نجات دلانے کیلئے ریسرچ کرکے ثابت کر دیا ہے کہ حکومتیں اپنی رعایا سے مخلص ہو ں اور ان کے دکھ درد کی ریاستی ذمہ داری کو سمجھتی ہوں تو ہر مسئلے کا حل نکالنا ممکن ہے۔ اٹلی میں ماہرین طب نے ”کورنا ”بارے ریسرچ کرکے بتا دیا ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہے ۔۔؟ اور اس کا علاج کیا ہے۔اس کے باوجود کوئی بھی اس علاج پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔تاہم ابھی اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔

کروناکی تشخص کیلئے PCRٹیسٹ کے ذریعے جسم میں وائرس کی موجود گی کا پتہ چلایا جاتا ہے ۔۔؟یہ ایک مہنگا ٹیسٹ ہے اس سے مثبت یا منفی رزلٹ حاصل کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ وائرس کاپتہ چلانے کیلئے Anti Bodyٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے ۔یہ ٹیسٹ PCRسے چار گناکم قیمت میں کیا جاتا ہے اور غریب لوگوں پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑتا ۔کورنا کی کنفرمیشن کے بعد مریض کوآئیسولیشن وارڈ میں داخل کرلیاجاتا ہے، اس دوران علاج کے ساتھ ساتھ چار مزید ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں ،گویا مریض کو یہ سارے ٹیسٹ تقریباً 20ہزار میں پڑتے ہیں اور کوئی بھی سفید پوش ،دہاڑی دار یا ملازمت پیشہ شخص یہ رقم ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والے کرونا ٹیسیٹس پر یقین کرنا خود کو موت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے اس لئے لوگ اپنی تسلی کیلئے نجی لیبارٹریز سے مہنگے ٹیسٹ کروانے پر مجبور ہیں ۔جبکہ کرونا اگر حقیقی معنوں میں وباء ہے تو کم از کم ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرہ افراد کیلئے یہ تمام ٹیسٹ ”فری” کروانے کی سہولت دے ۔اس کے لیے ضروری تھا کہ حکومت لوگوں کو 12ہزار روپے کی امداد دینے کی بجائے انہیں کرونا ٹیسٹ کی فری سہولت مہیا ء کرتی جیسا کہ سعودی حکومت نے اپنے شہریوں کو اس ٹیسٹ کی مفت سہولت فراہم کرکے احسن اقدام اٹھایا ہے ۔اس حوالے سے سعودی فرمانروا مبارکبادکے مستحق ہیںکہ جنہوں نے غیر قانونی تارکین وطن کو بھی یہ سہولت مفت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اعلان کیا ہے کہ کسی بھی غیر قانونی تاریکن وطن سے کوئی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جائے گی ۔

پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے یہاں ہر مسئلے میں دکاندار ی شروع ہو جاتی ہے ، کورونا کے بہت سیریس مریضوں کو بچانے کے لیے Actemra نامی ایک عام سا انجکشن ، جس کی قیمت تقریبا 800سے900 روپے کے درمیان تھی،ذخیرہ اندازوں اور بااثر مافیا نے عام سٹوروں سے غائب کرکے سٹاک کر لیا ہے یوں یہ انجکشن بلیک میں 12سے 30ہزار روپے تک فروخت کئے جانے کی اطلاعات عام ہیں۔لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں۔حکومت کو اس مافیا کے خلاف بھی کارروائی کرنا چاہئے۔

کورنا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا معاملہ بھی مبینہ طور پرپُراسراریت کاشکار ہے ،مرنے والا کرونا کے سبب مرا یا کسی اور مرض سے اس کی جان گئی ،ہسپتال والے متاثرہ انسان کوکرونا کا مریض بتا کرورثا کو میت تک دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔جبکہ کرونا والی میت میں وائرس کی موجودگی کا تاثر دے کر یہ لوگ لواحقین کو بھی مرنے والے سے دور رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔اس حوالے سے بہت سی کہانیاں ملک بھر میں گردش کر رہی ہے لیکن ابھی تک حقیقت سامنے نہیں آ سکی کہ آیا ہسپتالوں میں جانے والے مریض بیماری سے مرتے ہیں یا انہیں خدانخواستہ کوئی دوا دی جاتی ہے یا کوئی ایسا انجکشن لگایا جاتا ہے جس سے وہ اپنی جان سے چلا جاتا ہے اور اس کی میت بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہتی ۔بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ مرنے کے بعد ہر قسم کی بیماری انسانی جسم سے رخصت ہو جاتی ہے کیونکہ انسانی سسٹم کا تعلق روح سے بندھا ہے ۔لیکن اس بات کو بھی حرف آخر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ حکومت اور ماہرین طب کا فلسفہ اسی ایک نکتے پر قائم و دائم ہے کہ کرونا سے مرنے والے کی میت میں 72گھنٹے تک وائرس موجود رہتا ہے جو تدفین میں شامل ہونے والوں کو بھی لگ سکتا ہے ۔اس حوالے سے علمائے کرام اور ماہرین طب ہی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔

کرونا سے بچنے کیلئے ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی ”قوت مدافعت”بڑھانے کیلئے بتائی گئی ہدایات پر عمل کرے ،انڈے اور گوشت کا استعمال قوت مدافعت بڑھانے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے ،اس طرح ہمارا جسم اس وائرس کو اپنے اندر داخل ہونے سے روک سکتا ہے ۔

لوگوں کو اس وباء سے بچانے کیلئے حکومت کے پاس مکمل لاک ڈاؤن یا کرفیو کا آپشن تھا ۔لیکن پاکستان جیسے ملک میں”لاک ڈاؤن” معاشی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے اس لئے لوگوں کی غیر ذمہ داران روش کو دیکھتے ہوئے حکومت سے ”سمارٹ یا ہاٹ لاک ڈاؤن ”کی پالیسی پر عمل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کرونا وائرس کا خوف ختم کرنے کیلئے ”شعور آگاہی مہم ”کوتیز تر کیا جائے تاکہ لوگ کرونا کے خلاف خود کو ”حالت جنگ ”میں سمجھتے ہوئے عقل و شعور کے ساتھ کاروبارِ زندگی کو رواں دواں رکھ سکیں اور کروناپر قابو پانے کیلئے بھی حکومت اٹلی ، چائنا اور نیوزی لینڈ کی حکومتوں کی پالیسیوں کا جائزہ لے کر ان پر عمل درآمد کی راہ نکالے تاکہ ملک و ملت کسی مستقل عذاب سے دوچار نہ ہو ،اور کرونا پر بھی قابو پایا جا سکے ۔

Syed Arif Syed Bukhari

Syed Arif Syed Bukhari

تحریر : سید عارف سعید بخاری
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com