کرونا نے عالمی معیشت کی بنیادیں ہلا دیں

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : قادر خان یوسف زئی

کرونا وائرس اپنے تمام تر مضمرات کے ساتھ تمام براعظموں کو اپنے زد میں لے چکا ہے ۔ اٹلی، جنوبی کوریا، چین اور ایران سے رہا، چین چونکہ تجارتی طور پر دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے، اس لئے صنعتی سرگرمیاں، چین میں زیادہ ہیں، اسی باعث عالمی تجارت میں اہم کردار کے سبب چینی عوام و غیر ملکی افراد کا چین سے بالواسطہ رابطہ رہا۔ شروع میں خیال کیا گیا کہ چین، کرونا وائرس کو دیگر ممالک تک پھیلنے سے قبل ہی اس کا توڑ نکالنے میں کامیاب ہوجائے گا، لیکن گذشتہ دو ماہ میں چین میں ہلاکتوں کی بڑی تعداد نے کرونا سے متاثر دیگر ممالک کو سینو فوبیا میں مبتلا کرتے ہوئے اس موقع کا فائدہ بھی اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والا دوسرے بڑے نقصان کا سامنا کرنے والے ممالک جنوبی کوریا اور ’ایران‘ بنے، جہاں چین کے بعد متاثرین اور ہلاکتوں کی بڑی تعداد سامنے آئی۔ اس وقت عالمی سطح پر کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے سائنسدان ناکام نظر آرہے ہیں،چونکہ کرونا وائرس کو احتیاطی تدابیر سے ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے اس لئے کویِڈ انیس بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے احتیاطی تدابیر میں منفی پروپیگنڈوں سے عالمی تجارت متاثر ہوئی۔ گمان کیا جارہا ہے کہ ماہ اپریل کے آخرتک موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث وبا پر قابو پانے میں آسانی پیدا ہوجائے گی۔ جہاں بڑے تجارتی اداروں کو مالی نقصان کا سامنا ہورہا ہے تو دوسری جانب غیر متوقع طور پر وبا سے کئی بڑے تجارتی اداروں و ممالک کو فایدہ بھی پہنچ رہا ہے۔ ان خدشات کا اظہار بھی کیا گیا کہ کرونا وائرس کو لے کر عالمی سطح پر ایسا منظم پروپیگنڈا بھی کیا گیا، جس کے سبب چین کو شدید معاشی نقصان کا سامنا ہو۔ اس پروپیگنڈے کو سینو فوبیا کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ سینو فوبیا میں مبتلا ممالک، ایشیائی ممالک اور بالخصوص چین کی عوام کے ساتھ امتیازی رویہ رکھتے ہیں، واضح رہے کہ چین سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے خلاف نسل پرستی و تعصب کو سینو فوبیا قرار دیا جاتا ہے،۔چین اور چینی لوگوں کے خلاف تعصب کچھ نیا نہیں ہے۔ ’سینو فوبیا‘ یعنی چینی لوگوں سے ڈر یا ناپسندیدگی صدیوں سے چلا آ رہا ایک رجحان ہے۔یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا سمیت وہ ممالک جہاں ایشیائی افراد ایک واضح اقلیت ہیں وہاں چین اور چینی باشندوں کے لیے پہلے سے موجود ناپسندیدگی ان دقیانوسی خیالات کے باعث مزید بڑھی ہے کہ چینی گندے اور غیر مہذب ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر چینی افراد کو ’وائرس‘ کہنا بہت عام ہے، ایشیائی اقلیتوں کو عوامی مقامات پر خوش آمدید نہیں کہا جاتا یا انھیں نسل پرستانہ حملوں اور طنز کا نشانہ بنایا گیا۔فرانسیسی اور آسٹریلین اخبارات میں یہ شہ سرخیاں بھی چلیں کہ ’پیلا خطرہ‘ یا ’چینی بچے گھر رہیں۔‘

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریوسیس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ”ہم نے اس سے قبل سانس کی ایسی کوئی بیماری نہیں دیکھی، جو اس طرح پھیلتی رہی ہو۔ تاہم یہ بیماری درست اقدامات سے روکی جا سکتی ہے۔“ اس وقت دنیا کے110سے زائد ممالک میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعدادایک لاکھ سے تھاوز ہو چکی ہے، اٹلی اور آسٹریا میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ تیزی سے وبا پھیلنے کے باعث احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی۔ سب سے پہلے چین میں نئے سال کی تقاریب ختم کردی گئیں۔فرانس میں متعدد تقریبات منسوخ کرتے ہوئے ماحول میں ”0 500سے زیادہ افراد کی جمع“ کو منسوخ کردیا گیا، زرعی پیرس شو اور پیرس ہاف میراتھن اور متعددسیاحتی مقامات کو بھی سیاحوں کے لئے بند کردیا گیا۔ جنیوا میں سالانہ آٹو شو منسوخ کردیا گیا۔کروناکی وجہ سے دنیاکی سب بڑی نمائش ”دی موبائل ورلڈ کانگریس“ (ایم ڈیبلیو سی) 2020 منسوخ کر دی گئی۔ موبائل ورلڈ کانگریس 2020 کا نعقاد 24 تا 27 فروری اسپین کے شہربارسلونامیں ہوناتھاجس میں دنیا بھر سے اسمارٹ فون اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو شرکت کرنا تھی۔ایم ڈبلیوسی کی انتظامیہ نے کرونا وائرس کے خوف کے باعث تقریب منسوخ کرنیکاباقاعدہ اعلان بھی کیا۔ایونٹ کی انتظامیہ جی ایس ایم اے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ محفوظ، صحت مند اور میزبان ملک اسپین میں منعقد ہونے والی موبائل ورلڈ کانگریس 2020 دنیا بھر میں پھیلنے والے خطرناک کرونا وائرس کے خوف کے باعث منسوخ کی جا رہی ہے۔جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں 24 جولائی 2020 سے شروع ہونے والے اولمپکس مقابلوں کے کرونا وائرس کی وجہ سے منسوخ ہونے کا امکان ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے سینئر ممبر نے بیان جاری کیا ہے کہ اگر ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں کورونا وائرس کے خطرات کا زیادہ شبہ ہوگا تو مقابلے ملتوی کرنے یا جگہ تبدیل کرنے کی بجائے منسوخ کر دیے جائیں گے۔کمیٹی کا کہنا تھا کہ کروناوائرس کے خطرے کی وجہ سے اولمپکس مقابلے منسوخ کرنے کے معاملے پر غور کرنا شروع کردیا گیا ہے۔ شمالی اٹلی میں منعقد ہونے والا وینس میلہ بھی منسوخ کردیا گیا ہے اور یکم مارچ تک ہر عوامی تقریب اور بڑے اجتماعات پرپابندی عائد کردی گئی ہے۔برطانیہ کے سیکریٹری صحت کا کہنا تھا کہ کرونا کے بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے عوامی اجتماعات پر پابندی اور شہروں کولاک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے.ایران میں نماز جمعہ کے بڑے اجتماعات پر پابندی عاید کی گئی۔ سعودی حکام بھی غیر ملکی زائرین سمیت اپنے شہریوں کی بھی عمرے کی ادائیگی و مقدس مقامات کی زیارت کرنے پر احتیاطی تدابیر اختیار کرچکے ہیں۔چین سے غیر ملکیوں کی کثیر تعداد کو واپس اُن کے ممالک نے واپس بلا لیا،، فضائی سفر میں احتیاطی تدابیر کے سبب کئی ممالک نے متعدد شہروں و ممالک سے فضائی رابطہ منقطع کرلیا، کئی ممالک نے اپنی زمینی سرحدوں کو بند کردیا۔ جس سے زمینی تجارت متاثر ہورہی ہے۔19کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

کویِڈ انیس بیماری کے مسلسل پھیلاؤ نے خاص طور پر ایشیائی مالی منڈیوں کو مندی کی گرفت میں لے رکھا ہے۔ یورپی اور امریکی اسٹاک مارکیٹوں کو بھی شدید مالیاتی گراوٹ کا سامنا رہا۔ اس صورت حال پر ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی شرح پیداوار کے پہیے میں سستی روی پیدا ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے مالیاتی منڈیوں، اسٹاک مارکیٹوں اور ایوی ایشن انڈسٹری کو گہرا نقصان پہنچایا۔کرونا وائرس نے جہاں عالمی تجارت کو متاثر کیا ہے وہاں،وائرس کی وبا کے باعث کئی ایسے تجارتی اداروں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے، جو کرونا وائرس کی وبا سے احتیاطی تدابیر کے لئے محفوظ قرار دیئے جارہے ہیں، ان میں جراثیم کش پلانٹس کی سپلائی بڑھ چکی ہے۔ جراثیم کش سیال مادے سمیت مختلف مصنوعات کی طلب میں اضافہ کردیا ہے۔ چونکہ کووِڈ انیس بیماری کی احتیاطی تدابیر میں ایسے مواد کو اختیار کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کے باعثوبا کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ایسے میں بار بار ہاتھ دھونے کی لیے صابن اور سینیٹائزر کی مانگ میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں سرجیکل ماسک کی طلب میں یکایک اضافہ ہوا ہے، جس سے ماسک بنانے والی کمپنی ‘ 3ایم کارپ’ کے کاروبار کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ طبی کمپنیوں کے کاروبار میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جس کی مثال ملائیشیا کی کمپنی ‘ٹاپ گلوو’ ہے، جس نے بھی حالیہ دنوں میں زبردست کاروبار کیا اور اس کے مالکان میں شامل لِم وی چائے بھی ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔

عالمی ادارے کی ایک تحقیق کے مطابق کووِڈ انیس بیماری کی وجہ سے اجتماع پر جانے سے گریز کیا جارہا ہے اس لئے انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے، گھروں میں محدود ہونے کے سبب انٹرنیٹ پر معلوماتی پروگرام و فلمیں دیکھنے کے رجحان کے سبب نیٹ فلیکس جیسی کمپنیوں کے کاروبار میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، عالمی ذرائع ابلاغ کے مطاق 6کھرب ڈالر کی انڈسٹری میں نیٹ فلیکس نے ریکارڈ آمدنی حاصل کی۔ اسی طرح دیگر کمپنیاں پر ریکارڈ توڑ منافع کما رہی ہیں۔ اس مہلک انفیکشن کے تدارک کے لیے تجرباتی ویکسین بنانے والی کمپنی ‘موڈرنا’ کے چیف ایگزیکٹو اسٹیفان بانِسل حال ہی میں کچھ عرصے کے لیے دنیا کے ارب پتیوں میں شامل ہو گئے۔لوگ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ڈاکٹروں کی بتائی گئی مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ ایسی کمپنیاں جو ورزش کی مشینیں اور وڈیوز بناتی ہیں، ان کے کاروبار میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا، کیونکہ وائرس کی خوف کی وجہ سے وزرش کے لئے جم جانے والے افراد نے گھروں میں رہنے کے باعث جم جانا کم کردیا، بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے اسٹاف کو گھر وں میں کام کرنے کی اجازت دی۔ خیال ہے کہ وہ لوگ جو ویسے ورزش کے لیے جِم جاتے تھے اب کرونا وائرس کے ڈر سے گھر پر رہ کر ورزش کو ترجیح دے رہے ہیں۔کرونا وائرس جیسے جیسے پھیل رہا ہے، ایسے میں ٹیلی کانفرنسنگ کی کمپنی ‘زوم ویڈیو’ کی طلب میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔ فروری میں کمپنی کے شیئرز میں پچاس فیصد اضافہ ہوا اور اس سال کے صرف پہلے دو ماہ میں کمپنی کے پاس پچھلے سال کی نسبت 22 لاکھ سے زائد نئے صارفین آئے۔حالیہ دنوں میں یورپ کی بعض بڑی بڑی سپر مارکٹوں میں سبزی، پھل اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء کی قلت دیکھی گئی۔ بے چینی اور افراتفری کی وجہ سے لوگوں میں خوراک ذخیرہ کرنے کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ ایسے میں سرمایہ کار پیک کھانوں کی تیاری اور ترسیل میں پیسہ لگا رہے ہیں جبکہ آن لائن ریٹیل کمپنی ایمازون بھی اس رجحان سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ایران نے 70ہزار قیدیوں کو جیلوں سے رہا کردیا۔

کرونا وائرس سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور وبا کو خوف ناک شکل دینے میں مخصوص عناصر کی جانب سے منظم انداز میں افوہوں و غلط فہیموں نے بھی اہم کردار کیا۔جس سے دنیا بھر کے ممالک کی عوام متاثر ہونا شروع ہوئی۔ من گھڑت افوہوں کے ساتھ ساتھ ایک قابل علاج بیماری کو انتہائی بھیانک روپ میں پیش کیا گیا۔ چین اپنی آبادی کے سبب زیادہ نقصان کا باعث بنا، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین نے ہنگامی بنیادوں پر دنیا بھر میں کووِڈ انیس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لئے موثر اقدامات کئے۔ احساس ذمے داری کے ساتھ وبا کو دیگر ممالک میں پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی۔ معاشی تجارت میں نقصانات کے باوجود جانی نقصان سے بچنے کے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے۔ چین کی کل آبادی دنیا کا پانچواں حصہ ہے، ایک ارب تیس کروڑ سے زائد نفوس رکھنے والی مملکت میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس وقت بظاہر چین بحران میں مبتلا ہے تاہم گذرتے وقت کے ساتھ بہتر طبی احتیاطی تدابیرکے باعث کرونا وائرس کی وبا سے پہنچے والے نقصانات میں کمی آرہی ہے۔ چین نے پاکستانی شہریوں کے لئے بھی خصوصی طور علاج کی بہترین سہولیات فراہم کیں ہیں۔چین اس وقت مسائل کا شکار ہونے کے باوجود طبی بحرا ن پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہے۔ کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤکے دوران چائنا میڈیا گروپ کو سو سے زائد بین الاقوامی میڈیا اداروں کی جانب سے خطوط موصول ہوئے جن میں چین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ ان اداوں میں رائٹرز، ایسوسی ایٹ پریس، اے ایف پی، روس ٹوڈے انٹرنیشنل نیوز ایجنسی، اٹلی کے نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن کارپوریشن، ترکی نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن ایجنسی، برازیلین فلیگ مین میڈیا گروپ اور امریکی میڈیا گروپ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا سے متعلق اہم بین الاقوامی تنظیموں نے بھی چائنا میڈیا گروپ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ ان اداروں میں ایشیاء پیسیفک براڈکاسٹنگ یونین، یورپی نشریاتی یونین، یوروپی نیوز ایکسچینج یونین، اور عرب براڈکاسٹنگ یونین شامل ہیں۔وبا سے مقابلے کے دوران چائنا میڈیا گروپ کو 104 بین الاقوامی میڈیا اداروں اور 5 بڑی میڈیا تنظیموں کے سربراہان کے خطوط موصول ہوئے، جن میں اس وبا سے لڑنے کے لئے چینی حکومت اور لوگوں کی جانب سے موثر اقدامات کی تحسین کی گئی۔ ان خطوط میں توقع ظاہر کی گئی کہ چینی عوام وبا کی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

پاکستان بھی چہار اطراف سے کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک، چین، ایران سمیت بھارت اور افغانستان سے آنے والے افراد کی وجہ سے کورونا وائرس کا شکار ہوا۔ خاص طور پر ایران کے راستے آنے والے زائرین کے سبب پاکستا ن میں کویِڈ انیس بیماری کے ۔ احتیاط، علاج کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ ضروری ہے کہ احتیاطی تدابیر کے لئے قومی ادارہ صحت و عالمی اداروں کی تجاویز کو نظر انداز نہ کریں۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی