نئے سال کا پہلا سائبر کرائم

Cryptocurrency Fraud

Cryptocurrency Fraud

تحریر : الیاس محمد حسین
کرپٹو کرنسی بھی کرپٹ نکلی پاکستانیوں کے اربوں ڈوب گئے جو کل تک لمبا منافع کمانے کے دعوے دار تھے وہ اب سرپکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ ان کا اصل زربھی ہتھیا لیا گیا ہے سائبر کرائمز کی اس ہولناک واردات نے ایک سنسنی پھیلا دی ہے اس فراڈ کا ابھی تخمینہ ہی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ان جعلی آن لائن ایپلیکشنز کی وساطت سے پوری دنیا میں لوگوں نے سرمایہ کاری کی تھی پاکستانی وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے کرپٹو کرنسی میں 18 ارب سے زائد کے فراڈ کے حوالے سے عالمی کرپٹو ایکسچینج کو نوٹس جاری کر دیا پاکستانیوں سے اربوں روپے کا فراڈ آن لائن ایپلیکشنز کے ذریعے کیا گیا، آن لائن ایپلیکیشنز کرپٹو کرنسی کی عالمی ایکسچینج بائینانس سے جڑی تھیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم نے بائینانس کے پاکستان میں جنرل منیجر کو نوٹس جاری کر دیا۔ ایف آئی اے نے امریکا اور کے مین آئی لینڈ میں بائینانس کے ہیڈکوارٹر بھی نوٹس بھیجے ہیں کیونکہ اس سے ممکنہ طور پر کرپٹو کرنسی سے ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ بھی ہو رہی تھی۔

ایف آئی اے کے ہیڈ آف سائبر کرائم عمران ریاض کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان میں 11 موبائل فون ایپلیکشنز بائینانس سے رجسٹرڈ تھیں جن کے ذریعے فراڈ ہوا، 11 موبائل فون ایپلیکیشنز دسمبر میں اچانک بند ہو گئیں، جن پر ہزاروں پاکستانی رجسٹرڈ تھے، ان ہزاروں پاکستانیوں نے ان ایپلی کیشنز پر اربوں روپے لگا رکھے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایپلی کیشنز کے ذریعے ابتداء میں ورچوئل کرنسیز میں کاروبار کی سہولت دی جاتی تھی، بٹ کوائن، ایتھرام، ڈوج کوائن وغیرہ میں سرمایہ کاری بائینانس کے ذریعے ظاہر کی جاتی تھی، ایپلی کیشنز کے ٹیلیگرام اکاؤنٹ پر ماہرین کرپٹو کرنسی پر جوا بھی کھلاتے تھے، ایک ایپلی کیشن پر 5 سے 30 ہزار کسٹمر اور سرمایہ کاری 100 سے 80 ہزار ڈالر تھی، ایپلی کیشنز کے ذریعے عوام کو مزید افراد کو لانے پر بھاری منافع کا لالچ دیا جاتا تھا۔

ہیڈ آف سائبر کرائم عمران ریاض نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے کو بائینانس کے 26 مشتبہ بلاک چین والٹ ملے جن پر رقوم ٹرانسفر ہوئیں، بائینانس سے ان بلاک چین والٹس کی تفصیلات مانگی ہیں۔ ایف آئی اے پاکستان سے بائنانس کے ذریعے ہونے والی ٹرانزیکشن کی چھان بین کر رہی ہے، بائنانس ٹیرر فائنانسنگ اور منی لانڈرنگ کے لیے آسان راستہ ہے، امید ہے کہ بائنانس ان مالی جرائم کی تحقیقات میں پاکستان سے تعاون کرے گا۔ کرپٹو کرنسی میں 18 ارب سے زائد کا فراڈ نئے سال کا پہلا سائبر کرائم ہے جوبڑے منظم اندازمیں کیا گیااورتاحال جس کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا دنیا میں ہر سال کھربوںڈالرکے فراڈپرمبنی مختلف نوعیت کی وارداتیں ہوتی ہیں لیکن لالچ بری بلاہونے کے باوجودکوئی اس سے سبق حاصل نہیں کرتااور اس گورکھ دھندے میں لوگ پھنستے ہی چلے جاتے ہیں منافع،اور زیادہ منافع اور پھر مزید منافع کے لالچ میں لوگ اپنے اصل زرسے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیںپاکستان میں پونزی اسکیمز کی طرز پر بہت سے آن لائن سرمایہ کاری کے فراڈ جاری ہیں جن میں سرمایہ کاروں سے زیادہ کلائنٹس لانے پر ان کی سرمایہ کاری پر زیادہ منافع کا وعدہ کیا جاتا ہے یہ اسکیمز نئے کلائنٹس کی قیمت پر پرانے کلائنٹس کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور بالآخر اربوں روپے کا ٹھیک ٹھاک سرمایہ بنانے کے بعد غائب ہوجاتی ہیں۔

ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ پیر 20 دسمبر کو پورے پاکستان سے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ سے رابطہ کرنا شروع کیا اور کم از کم 11 موبائل ایپلی کیشنز یعنی MCX ،HFC ،HTFOX ،FXCOPY ،OKIMINI BB001 ،AVG86C ،BX66 ،UG ،TASKTOK کے بارے میں انکشاف کیا کہ ان ایپلی کیشنز نے پاکستانی عوام کے ساتھ اربوں روپے کا فراڈ کر کے ایک عرصے سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ان ایپلی کیشنز کا طریقہ کار لوگوں کو بائنانس کرپٹو ایکسچینج (بائنانس ہولڈنگز لمیٹڈ) میں رجسٹریشن کے لئے آمادہ کرنا تھا جس کا مقصد ورچوئل کرنسیوں جیسے بٹ کوائن، ایتھریم، ڈاج کوائن وغیرہ میں تجارت کرنا تھا۔جس کے بعد اگلا مرحلہ بائنانس والیٹ سے اس مخصوص ایپلیکیشنز کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنا تھا۔ بائنانس سب سے بڑا غیر منظم ورچوئل کرنسی ایکسچینج ہے جہاں پاکستانیوں نے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

ایف آئی اے کے مطابق اسی وقت گروپ کے تمام ممبران کو ٹیلیگرام ایپلی کیشن پر گروپس میں شامل کیا گیا جہاں ایپلی کیشن کے گمنام مالک اور ٹیلی گرام گروپس کے ایڈمنز کی جانب سے بٹ کوائن کے عروج اور زوال کے بارے میں نام نہاد ماہر بیٹنگ سگنلز دیئے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ جب کافی کیپٹل بیس قائم ہو گیا تو یہ ایپلیکیشنز کریش ہوگئیں اور اس طرح ریفرل بونس عمل کے ذریعے لوگوں کے لاکھوں ڈالر لوٹے گئے انکوائری کے ابتدائی نتائج کے مطابق اس طرح کی ہر ایپلیکیشن کے اوسطاً 5 ہزار صارفین تھے جبکہ HFC کے ساتھ مبینہ طور پر زیادہ سے زیادہ 30 ہزار صارفین تھے۔

Ilyas Mohmmad Hussain

Ilyas Mohmmad Hussain

تحریر : الیاس محمد حسین