کرپشن پر سمجھوتے۔احتساب کب ہو گا؟

Corruption

Corruption

تحریر : امتیاز علی شاکر

کرپشن کے معنی ہیں ٹوٹ پھوٹ، عیب دار جبکہ ارسطو نے کرپشن کو بدعنوانی کہا ہے، بدعنوانی یعنی رشوت لینا، سرکاری اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھانا یا اپنے عزیز و اقارب کو مستفید کرنا، دنیا میں کرپشن کی درجنوں اقسام پائی جاتے ہیں جوسب کی سب سنگین جرائم تصورکی جاتی ہیں، دنیا کے کئی ممالک جیساکہ چین کرپشن پرسخت سزائیں دے کربڑی حدتک کرپشن کی حوصلہ شکنی کررہے ہیں ،جن ممالک نے کرپشن کی روک تھام کیلئے سنجیدہ اقدام اٹھائے وہ آج ترقی یافتہ اورخوشحال ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جبکہ کرپشن پرسمجھوتے کرنے والے ممالک ترقی پزیرسے پزیرترین ہورہے ہیں،افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ جن میں پاکستان بھی شامل ہے، نیب ترمیمی آرڈیننس منظوری کے بعداپوزیشن جماعتوں سمیت دیگرکئی حلقوںکی جانب سے شدیدتنقید کی زدمیں ہے یہاں تک کہ ترمیمی آرڈیننس کومدرآف قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او)قرار دیتے ہوئے رہنماپیپلزپارٹی قمر زمان کائرہ نے کہا کہ جب سابق صدرآصف زرداری نے کہاکہ نیب اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے توہم پر این آر او مانگنے کاالزام لگایاگیااور اب نیب ترمیمی آرڈیننس لاکر حکومت نے اپنے ساتھیوں کو این آر او پلس دے دیا۔

دوسری جانب رہبر کمیٹی کے کنوینئراکرم خان درانی نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیںنیب ترمیمی آرڈیننس کی مخالف ہیں،پارلیمینٹ میں نیب ترمیمی آرڈیننس کا جائزہ لے کرآئندہ کا لائحہ عمل اختیارکریںگے،اکرم خان درانی کاکہناتھاکہ ہم تو نیب کو برقرار رکھنا ہی نہیں چاہتے،نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے،حکمرانوں نے اپنے آپ اوراپنے دوستوں کو بچانے کے لئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے جبکہ اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ نے تاجروں اور سرکاری ملازموں کونیب کے دائرہ اختیار سے نکالنے پرنیب ترمیمی آرڈیننس کولاہورہائیکورٹ میں چیلنج کردیاہے،اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ تاجروں اور سرکاری ملازمین کونیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکالنا آئین کے آرٹیکل پچیس کی خلاف ورزی ہے۔

آئین کے تحت تمام شہری برابر ہیں کسی ایک طبقے کودوسرے پرترجیح نہیں دی جاسکتی،جس آرڈیننس پر اس قدرشوربرپاہے اصل میں وہ ہے کیا؟منظورشدہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کیخلاف نیب کاروائی نہیں کرسکے گا،ایسے ملازمین کیخلاف کارروائی ہوگی جن کیخلاف شواہد دستیاب ہوں گے،آرڈیننس کہتاہے کہ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا، تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہونے کی صورت میں گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا پر سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی، نیب 50 کروڑ سے کم کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی نہیں کر سکے گا،نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق ٹیکس،اسٹاک ایکسچینج،آئی پی اوز سے متعلق معاملات میں نیب کا دائرہ اختیار ختم ہو جائے گا،ان تمام معاملات پر ایف بی آر،ایس ای سی پی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز کاروائی کے اختیارات رکھتی ہیں۔

معروف قانون دان،چیئرمین پاور گروپ آف لائیرز،محمد رضا ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کے ساتھ نیب ترمیمی آرڈیننس اورنظام عدل کے حوالے سے تفصیلی گفتگوہوئی،انہوں نے بہت ساری نایاب قسم کی معلومات فراہم کرتے ہوئے انہیںآف دی ریکاڑکردیاجبکہ حالیہ نیب ترمیمی آرڈیننس پرشدیدتحفظات کااظہارکرتے ہوئے ان کاکہناہے کہ حکومت کا نیب ترمیمی آرڈیننس میں نیب کے اختیارات محدود کرناکسی صورت مناسب نہیں،سرکاری ملازمین کیخلاف محکمانہ کرپشن کی بنیادپرکاروائی سے روکنااورکسی بھی کرپٹ سیاستدان کی جائیدادعدالتی حکم کے بغیر منجمد کرنے کے اختیارات واپس لینانیب کے ہاتھ کاٹنے کے مترادف ہے،حالیہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد نیب سے کرپٹ سیاستدانوںاورسرکاری ملازمین باآسانی بچ نکلیں گے،انہوں نے کہا محکمہ اینٹی کرپشن اور احتساب بیورو کرپشن کے گڑہ بن چکے ہیں ان پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود کارگردگی صفر ہے اینٹی کرپشن میں لاکھوں شکایات کے باوجود کوئی کاروائی نہیں ہوتی،ہمیشہ بااثرملزمان سفارش اوررشوت کے سہارے سزا سے بچ نکلتے ہیں۔

حکومت کو ان اداروں کی بہترکارکردگی کیلئے اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عوام کو ریلیف مل سکے،محمدرضاایڈووکیٹ نے اپوزیشن جماعتوں کے موقف کوسیاسی پوائنٹ سکورینگ قراردیتے ہوئے کہاکہ جب کوئی قانون نافذیامنسوخ ہوتاہے تواس کے اثرات کسی خاص حلقے پرنہیں بلکہ بلاامتیازہوتے ہیں،نیب ترمیمی آرڈیننس قانونی اقدام جوسب کیلئے ہے،اصولی طورپرنظام احتساب اورنظام عدل ایساہوناچاہیے کہ ملزمان کیخلاف کاروائی کرتے ہوئے یہ نہ دیکھاجائے کہ ملزم کاتعلق حکمران جماعت کے ساتھ ہے یااپوزیشن کے ساتھ،احتساب بلاامتیازاورسخت ہوناچاہئے،انہوں نے حکومتی اورعدالتی نظام کے کمزورپہلوئوں کوشدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے کہاکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم،ملک کوپہلامتفقہ آئین دینے والے قائد عوام ذوالفقاربھٹوکی جانشین بے نظیر بھٹو کے قاتلوںکی گرفت نہ کرپاناہمارے نظام حکومت،نظام عدل سمیت تمام قومی اداروں کی شدیدترین ناکامی اورناقص کارکردگی کامنہ بولتاثبوب ہے۔

عام عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ12سال گزرگئے، دومرتبہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہونے والی محترمہ بینظیربھٹو کے شوہرملک کے صدرمنتخب ہوئے اورپاکستان پیپلزپارٹی نے پانچ سال تک صوبے اوروفاق میں حکومت کی آج بھی صوبہ سندھ میں انہیں کی حکومت ہے پھربھی محترمہ کے قاتل بے نقاب نہیںہورہے،کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج بھی محترمہ کے صاحبزادے اورسیاسی جانشین بلاول بھٹوزرداری جلسوں میںعوام سے سوال کرتے ہیں کہ محترمہ کے قاتلوں کو سزاکیوں نہیں دی گئی،بلاول بھٹوزردداری جب کسی سرمایہ دار،جاگیردار،وڈیرے کوپارٹی ٹکٹ جاری کرتے ہیں تواُس وقت خود سے سوال کیوں نہیں کرتے کہ کوئی نااہل،ان پڑھ شخص اسمبلی میں بیٹھ کرکیاقانون سازی کرے گا؟جس نظام عدل کی بھاگ ڈوران پڑھ،نااہل،جرائم پیشہ ارکان پارلیمنٹ کے ہاتھوں میں ہوگی وہ نظام عدل سائلین کوانصاف کیسے فراہم کرسکتاہے؟کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ نیب ترمیمی آرڈنینس کے بعد سرکاری ملازمین کیلئے آسانی پیداہوگی اوروہ بہترکارکردگی دیکھائیں گے۔

ایسی سوچ رکھنے والے احباب سے سوال ہے کہ کرپشن کرنے پرپکڑنہ ہویہ توہربے ایمان کی خواہش ہے توکیاسب کوکھلی چھوٹ دے دینی چاہیے؟کرپشن توہرحال میں کرپشن ہے چاہے ایک روپے کی ہویاایک ارب کی،پچاس کروڑسے کم کرپشن پرفلاں ادارہ تحقیقات کرے گااورپچاس کروڑسے زائدکرپشن پرفلاں ادارہ یہ سب وقت گزارواورمال بناوطریقے ہیں ورنہ کرپشن کرنے والے ملک وقوم کے دشمن اورغدارہیں ایسے لوگوں کو سخت سزائیں دی جانی چاہیے ،سرکاری ملازمین ہوں یاسیاسی قائدین یاپھردیگرانتظامیہ سب تنخواہ لیتے ہیں لہٰذااپناکام پوری ایمانداری کے ساتھ کرنااُن کی ذمہ داری ہے،جوکوئی احتساب کے ڈرسے کام نہیں کرناچاہتااس کی ایمانداری پرشک وشبہات کی گنجائش پیداہوجاتی ہے لہٰذااُن کیلئے احتساب کے قوانین کوکمزورکرنے کی بجائے مزیدسخت اورموثربنایاجائے توبہترنتائج نکل سکتے ہیں،کرپٹ مافیاکورعایتیں دیناکوئی نئی بات نہیں پراحتساب کے نام پر سیاست سے حکومت تک پہنچنے والوں سے ایسی اُمیدنہ تھی ۔جناب وزیراعظم عمران خان قوم کوبتائیں کہ اسی طرح کرپشن پرسمجھوتے کرتے رہیں گے توپھراحتساب کب ہوگا؟

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر