کرپشن کے حمام میں

Pandora Papers

Pandora Papers

تحریر : ایم سرور صدیقی

پاناما لیکس سے بڑے پنڈورا پیپرز کے ہوشربا انکشافات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیاہے تاریخی اعتبار سے یہ دنیا کے سب سے بڑے انکشاف ہیں جس میں بہت سے عالمی و بہت سے ممالک کی اہم شخصیات کو بے نقاب کیا گیاہے اب تلک پنڈورا پیپرز میں 29000 سے زائدآف شور کمپنیوںکا پردہ فاش کردیا گیا2سالہ تحقیقات میں 150میڈیاہائوسز نے معاونت کی 200سے زائدممالک پر محیط130کھرب پتی افرادکا کچہ چٹھہ کھول کررکھ دیا 11.9ملین سے زائدخفیہ دستاویزجاری کی گئی ہیں 700سے زائد پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں بے نقاب ہوگئیں۔ پنڈورا پیپرز میں 2وفاقی وزراء شوکت ترین، مونس الٰہی کے علاوہ فیصل واوڈا، پیپلزپارٹی کے شرجیل میمن، اسحاق ڈار کا بیٹا علی ڈار، خسرو بختیار کے بھائی تاجر ، میڈیا مالکان اور ریٹائرڈ فوجی افسران شامل ہیں۔ پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین سمیت بیشتر شخصیات نے ان آف شور کمپنیز سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔خوفناک بات یہ ہے کہ غیرقانونی ذرائع سے دنیابھرمیں لندن میں جائیدادیں خریدنے والوں میں پاکستانی پانچویں نمبر پر ہیں جن میں وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے اہم ارکان ریٹائرڈ سول اور فوجی افسر وں اور ان کے ارکان خاندان اور بعض اہم میڈیا اداروں کے مالکان کے لاکھوں ڈالر کی آف شور کمپنیاں اور ٹرسٹ ہونے یا ماضی میں رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔

جاپان کے 1000 سے زائد کاروباری اداروں اور انفرادی شخصیات کے نام پنڈورا پیپرز میںآنے سے جاپان کی سیاست میں بھونچال آگیا ہے حالانکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایماندار شہری جاپان کے تصورکئے جاتے ہیں پنڈورا پیپرز کے مطابق جاپان کے ٹاپ کے کاروباری ادارے اور چوٹی کے سیاستدان اور معروف کاروباری شخصیات نے ٹیکس بچانے کے لیے اپنی دولت پانامہ سمیت دیگر برٹش آئی لینڈ میں کمپنیاں بنا رکھی تھیں ، اِن ہی اہم کاروباری اداروں میں جاپان کے اہم ٹیلی کام کمپنی سافٹ بینک جاپان کے گروپ چیئرمین اور سی ای او کے بیٹے کے نام پر بھی کمپنی موجود تھی جس کے ذریعے جیٹ ہوائی جہاز خریدا گیا تھا جسے بعد میں امریکن وینچر کے نام پر منتقل کردیا گیا تھا۔ اسی طرح جاپان کی اہم سیاسی شخصیت چیف کیبنیٹ سیکریٹریٹ سیکشن کے سربراہ Takeo Hirata کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں شامل ہے جنہوں نے ورجن آئی لینڈ میں کمپنی قائم کررکھی ہے، وہ جاپان اولمپک اور پیرا اولمپک کی پروموشن کے انچارج، سابق بیوروکریٹ اور جاپان فٹ بال ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری بھی رہے ہیں۔ اسی طرح برٹش ورجن آئی لینڈ میں جارج ہارا نامی جاپانی شہری کی بھی کمپنی قائم ہے جس کے اثاثے اکتیس ملین ڈالر ہیں۔ جارج ہارا ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے اس طرح کے کسی بھی کاروبار سے انکار کردیا ہے۔

پینڈورا پیپرز میں ایک ہزار سے زائد جاپانی شخصیات اورکاروباری اداروں کے نام موجود ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کیا کارروائی کرتی ہے۔ن کا کہنا ہے کہ جائیداد قانونی طور پر آف شور کمپنی سے خریدی گئی تھی اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں آف شورکمپنی بنانے والے غیر ملکی سربراہان مملکت میں شامل ہے۔ اردن کے شاہ عبد اللہ کیلیفورنیا، واشنگٹن اور لندن میں 10کروڑ ڈالر اثاثوں کے مالک ہیں۔ واشنگٹن میں اردن کے سفارتخانے نے شاہ عبداللہ کے مشکوک اثاثوں سے متعلق تبصرے سے انکار کردیا۔ پنڈورا پیپرز میں سچن ٹنڈولکر کا نام بھی شامل ہیں دوسری جانب آف شور کمپنیاں رکھنے والوں سے متعلق پنڈورا پیپرز کی لسٹ میں قطر کے حکمرانوں کا نام بھی سامنے آیا ہے، سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر یوکرین، کینیا اور ایکواڈور کے صدور کے نام بھی آف شور کمپنیاں نکلی ہیںیوکرین، کینیا اور ایکواڈور کے صدور کے نام بھی آف شور کمپنیاں نکلی ہیں۔جبکہ چیک ری پبلک اور لبنان کے وزرائے اعظم کے نام بھی پنڈورا پیپرز میں سامنے آئے ہیں ان کمپنیوںمیں کھربوں کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

پنڈورا پیپرز میں عمران خان کے قریبی افراد کی کمپنیاں سامنے آنے سے پاکستان کی سیاست میں کھلبلی سی مچ گئی ہے سویلین قیادت کے علاوہ بعض ریٹائرڈ ملٹری افسروں کی آف شور ہولڈنگز کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ آف شور کمپنیوں اور جائیدادوں کے مالکان میں سابق کور کمانڈر کی اہلیہ اور بیٹا، جنرل (ر) محمد افضل مظفر کا بیٹا، جنرل (ر) نصرت نعیم، جنرل (ر) خالد مقبول کا داماد، جنرل (ر) تنویر طاہر کی اہلیہ، جنرل (ر) علی قلی خان کی بہن، ایئر مارشل عباس خٹک کے بیٹے اور ریٹائرڈ آرمی آفیسر اور سیاستدان راجہ نادر پرویز شامل ہیں۔جن لوگوں کی آف شور ہولڈنگز کا پنڈورا پیپرز میں انکشاف ہوا ہے ان میں وزیر خزانہ شوکت ترین اور تین افراد خاندان، وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار کے جھوٹے بھائی عمر شہریار سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا اور دو ارکان خاندان، وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی، سینئر صوبائی وزیر خوراک عبدالعلیم خان، وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے خزانہ مالیات وقار مسعود خان کا بیٹا، نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر عارف عثمانی اور نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر عدنان آفریدی، وزیراعظم کے گشتی سفیر برائے غیر ملکی سرمایہ کاری علی جہانگیر صدیقی، ابراج کے بانی عارف مسعود نقوی، بڑی کاروباری شخصیت طارق شفیع شامل ہیں۔

سویلین اور فوجی لیڈروںکے علاوہ دستاویزات میں بڑے میڈیا مالکان کا بھی انکشاف ہوا ہے جن کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ جن میڈیا مالکان کی آف شور کمپنیاں ہیں ان میں جنگ گروپ کے پبلشر میر شکیل الرحمٰن، سی ای او ڈان میڈیا گروپ حمید ہارون، پبلشر ایکسپریس میڈیا گروپ سلطان احمد لاکھانی، ٹی وی چینل جی این این کا مالک، گورمے گروپ اور پاکستان ٹو ڈے کے پبلشر عارف نظامی مرحوم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار، سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور سابق چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری فنانس سلمان صدیق کے بیٹے یاور سلمان کی بھی ٹیکس چوروں کیلئے محفوظ علاقوں میں کمپنیاں ہیں۔

اس کا مطلب ہے کرپشن کے حمام میں سب ننگے ہیںحقائق بتاتے ہیں کہ سویلین اور ملٹری ایلیٹ کس طرح اپنا غیرقانونی سرمایہ آف شور کمپنیوں میں رکھتے ہیں اور ان سے بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں ان کی اکثریت نے یہ کہہ کر ان کمپنیوں سے لاتعلقی ظاہر کی ہے کہ یہ ان کے خاندان کے افراد کی ہیں اور وہ اپنے طور پر کام کر رہے ہیں یا پھر یہ کہا ہے کہ یہ کمپنیاں غیر فعال ہیں حالانکہ یہ سب دلیلیں من گھرٹ اور دھوکہ دینے کے مترادف ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ پنڈورا پیپر ز میں نا م آ نے و الو ں کو مجرم تصور کیا جائے ماضی میں پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد پاکستان سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی پہلی لسٹ میں 636 افراد کے نام شامل تھے پھر وہ بڑھ کر 836 ہوگئے مگر معاملے کو دبا دیاگیا آف شور کمپنیوں کی وجہ سے ملک میں افراط ِ زر پیداہوجاتاہے جس ے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جنم لیتی ہے اسی بناء پر غریب عوام پر مہنگائی کے ڈرون حملے جاری ہیں اور اب تو مہنگائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ غریب عوام کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔

پنڈورا پیپرز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے وسطی لندن میں 67 لاکھ پونڈ کی جائیداد خریدی مگر 3 لاکھ 12 ہزار پونڈ اسٹیمپ ڈیوٹی ادا نہیں کی ۔پنڈورا پیپرز میں پاکستان کے متعدد سابق فوجی افسران کی آف شور کمپنیاں بھی منظرِعام پرآگئی ہیں جن میں سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے سابق ملٹری سیکریٹری لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفاعت اللہ شاہ نے آف شور کمپنی کے ذریعے لندن میں مہنگا اپارٹمنٹ خریدا میجر جنرل (ر) نصرت نعیم کے نام ایک آف شور کمپنی نکلی ہے، انہوں نے 2009 میں ریٹائرمنٹ کے بعد آف شور کمپنی رجسٹرڈ کروائی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر کے بیٹے کے نام بھی ایک آف شور کمپنی سامنے آئی ہے۔ افضل مظفر پر اسٹاک مارکیٹ میں 4 ارب 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے الزام میں کیس بھی چلا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان کی بہن نے آف شور کمپنی کے ذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدیں۔

سابق ایئر چیف مارشل عباس خٹک کے دو بیٹوں کے نام بھی آف شور کمپنی نکل آئی ان ا نکشافات کے بعدزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پنڈورا پیپرز میں جو بھی قصور وار پایا گیا اس کے خلاف کارروائی ہوگی، حکومت پنڈورا پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں کی تحقیقات کرے گی۔ عمران خان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پینڈورا پیپرز کی تحقیقات کا خیرمقدم کرتے ہیں، اشرافیہ نے ٹیکس چوری، کرپشن سے ناجائز دولت وزیراعظم نے کہا کہ غریب ملکوں کا پیسہ روکنے کے لیے امیر ملک کچھ نہیں کرتے۔ پینڈورا پیپرز نے کرپشن سے کمائی گئی اشرافیہ کی ناجائز دولت کو بے نقاب کیا۔ اشرافیہ نے کالے دھن کو مالیاتی محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے ادارے نے چوری شدہ اثاثوں کا تخمینہ 7 ٹریلین ڈالر لگایا ہے، یہ دولت بڑے پیمانے پر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کی گئی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ میری حکومت پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے تمام شہریوں کی تحقیقات کرے گی، اگر کوئی غلطی ثابت ہوئی تو مناسب کارروائی کریں گے۔ ترقی پذیر دنیا کی اشرافیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح دولت لوٹ رہی ہے، بدقسمتی سے امیر ریاستیں بڑے پیمانے کی اس لوٹ مار کو روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ان تمام تر انکشافات کے بعد حقیقت تویہ ہے کہ کرپشن روکنے کے لئے غالمی برادری کو مل کرٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا ورنہ کرپشن کے حمام میں اشرافیہ موج مستی کرتی رہے گی۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی