دھیلے کی کرپشن

Corruption

Corruption

تحریر : الیاس محمد حسین

پنجاب پر سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والے میاں شہباز شریف کا تکیہ کلام ہے کہ میں نے دھیلے کی کرپشن بھی کی ہو تو جو چاہے سزا دے دو لیکن اب نیب نے جو کرپشن کے متعدد ریفرنسز فائل کئے ہیں ان کے مطابق واقعی دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی بلکہ اربوں کھربوں کی بے ضابطگیاں سامنے آرہی ہیں ان اطلاعات نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ

خداوند تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری،سلطا نی بھی عیاری

کئی ماہ پہلے سپریم کورٹ میں 56 کمپنیوں میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور شہباز شریف کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ یہ بڑے خاصے کی چیز ہے پڑھئے سر دھنئے اور سوچئے اس ملک کو کیسے کیسے انداز میں لوٹا گیاہے شاید چوری کے ساتھ سینہ زوری اسی کو کہتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے شہباز شریف سے کہا کہ جب پوچھوں تب بولیں، چیف جسٹس، ہاں میں ہاں ملا رہا ہوں ، چیف جسٹس نے کہا کہ 4 ارب لگا دیئے ایک بوند پانی نہیں، شہباز شریف نے کہا کہ موقف کے لئے چند دن دیدیں، چیف جسٹس نے قومی خزانہ آپکے پاس ہے، شہباز شریف نے کہا کہ میرے پاس پنجاب کی ذمہ داری ہے، ہر فیصلے کو قبول کروں گا،چیف جسٹس نے کہا کہ قبول نہیں کرینگے تو پھر بھی کرنا پڑے گا۔شہباز شریف نے روسٹرم پر آکر کہا کہ عدالت کے احکامات پر حاضر ہو گیا ہیں۔ چیف جسٹس نے باور کروایا کہ آپ قومی خزانے کے امین ہیں یہاں پر کمپنیوں میں بھاری تنخواہوں پر تقرر کیا گیا ہے یہ کوئی لوٹ مار کامال نہیں جسے یوں بانٹا جا رہا ہے، چیف جسٹس نے اعادہ کیا کہ ایک ایک پائی لی جائے گی۔

وزیراعلی شہباز شریف نے کہا کہ انہوں نے قوم کے پیسے کو ضائع ہونے سے بچایا ہے صاف پانی کمپنی میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جو کچھ اس میں ہوا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ایک سو ستر ارب کا فراڈ بچایا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ ہونے کی حیثیت سے آپ اس کے ذمہ دار ہیں دیگر ملکوں میں تو استعفے دے دیئے جاتے ہیں۔ شہباز شریف نے بتایا کہ 160 ارب روپے کی کرپشن بچائی ہے۔ چیف جسٹس نے شہباز شریف کو مخاطب کیا اور کہا کہ ہم احتساب کے لئے نہیں بیٹھے ہیںیہ بتائیں کہ ایک لاکھ روپے تنخواہ لینے والے کو 14 لاکھ تنخواہ کیو ں دی جارہی ہے۔ شہباز شریف نے وضاحت کی یہ ان کا فیصلہ نہیں ہے۔

یہ فنانس ڈیپارٹمنٹ نے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بار بار یہ سوال کیا آپ یہ بتائیں کہ 14،14 لاکھ پر آفیسر کیوں بھرتی کیے گئے۔ وزیراعلی پنجاب نے کہا آپ اس بات کو کیو ں نہیں سراہتے کہ میں نے 70 ارب روپے بچائے ہیں۔ (مطلب میریاں آنیاں جانیاں ویکھو) بنچ نے شہباز شریف کو مخاطب کیا آپ بار بار اپنی ذات کو بیچ میں کیوں لاتے ہیں؟۔ شہباز شریف نے ایک موقعہ پر کہا مجھے کتے نے کاٹا تھا کہ میں نے قومی خزانے کا نقصان ہونے سے بچایا تھا، اس پر چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیراعلیٰ کو اسطرح کے بیان نہیں دینے چاہیے جس پر وزیراعلی نے معذرت کی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اسکا منظر کچھ اس طرح دکھائی دیا، شہباز شریف عدالتی حکم پر ایک بجکر 55 منٹ پر سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پیش ہوئے تو پہلے سے جاری مفاد عامہ کی سماعت جاری رہی۔ شہباز شریف 5 منٹ انتظار کرتے رہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ کہاں ہیں آپکے ایکس سی ایم؟ چیف سیکرٹری پنجاب سر ایکس نہیں وہ ابھی بھی سی ایم ہیں۔ چیف جسٹس چلیں بلائیں انہیں روسٹم پر۔شہباز شریف روسٹم پر السلام علیکم آپکا حکم ہوا تھا اسی سلسلے میں حاضر ہو گیا۔چیف جسٹس گزشتہ سماعت پر آپ پر اطمینان کیا تھا اس بار معاملہ سنجیدہ ہے…..شہباز شریف نے کہا میں آپکے موقف کی تائید کرتا ہوں مجھے اپنا مدعا بیان کرنے کا موقع دیا جائے …..چیف جسٹس نے جواباً کہا کھڑے رہیں اور جب پوچھوں تب بولیں…..شہباز شریف جی میں توآپکی ہاں میں ہاں ملا رہا ہوں….. چیف جسٹس پاکستان کا قومی خزانہ آپ کے پاس ہے اور آپ اس کے امین ہیں….. شہباز شریف نہیں میرے پاس پنجاب کی ذمہ داری ہے…..

چیف جسٹس آ پ نے کمپنیز بنا دیں، اچھا کام سوچا ہوگا چیز سمجھ میں نہیں آتی کہ گریڈ 18 کے افسر کی تنخواہ 10 لاکھ روپے کیوں رکھی گئی، آپکا تو شاید اتنا ٹیکس نہیں کٹتا ہو گا اصل ٹیکس پئیر تو عوام ہیں زیادہ نقصان آپ کا نہیں ہوا ان کا ہوا ہے جن کی تنخواہ سے بھی ٹیکس کٹ جاتا ہے، ہم ایک ایک پیسہ واپس لیں گے….. شہباز شریف بولے یہ کمپنیز ملک میں پہلی بار نہیں بنائی گئیں…..چیف جسٹس یہ رقم پنجاب کی ہے اور ان کا حساب دینے کے لئے آپ کو بلایا ہے…..شہباز شریف نے کہا سرکاری محکموں کے ذریعے کام ہوتے تھے تو کرپشن ہوتی تھی میں تسلیم کرتا ہوں اور افسوس ہے کہ صاف پانی میں منصوبے کامیاب نہیں ہوا اور صاف پانی میسر نہیں آیا جناب کے ہر فیصلے کو قبول کرینگے…..چیف جسٹس اگر آپ قبول نہیں کرینگے تو پھر بھی آپ کو ہمارا فیصلہ قبول کرنا پڑے گا،چار ارب روپے صاف پانی کمپنی میں لگا دئیے پانی کی ایک بھی بوند مہیا نہیں کی گئی،صاف پانی کمپنی کے سی ای او کی تنخواہ 14لاکھ 50 ہزار کیوں ہے…..شہباز شریف میرے علم میں نہیں ہے….. چیف جسٹس پھر آپ کس بات کے چیف منسٹر ہیں؟…..شہباز شریف محکمہ فنانس نے نوٹیفیکیشن جاری کیا….. چیف جسٹس کیا محکمہ فنانس پنجاب حکومت کے ماتحت نہیں؟….. شہباز شریف اگر ایک دھیلے کی بھی کرپشن نکل آئی تو جو بھی سزا دینگے منظور ہوگی ہم نے صاف پانی کمپنی میں اربوں روپے کی بچت کی….. چیف جسٹس میں آپ کے جواب سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں، آپ سے جو پوچھا ہے بس اس کا جواب دیں۔ چیف جسٹس:پاکستان قوم کی امانت ہے آپ نے کمپنیاں بنا دی ہیں اور اداروں کو اور حکومت کو آئوٹ سورس کر دیا ہے۔ 18 ویں گریڈ کے افسر ایک لا کھ 30 ہزار سے 10 لاکھ / 25 لاکھ تک کیسے پہنچے۔ یہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے ، شیر دل کو اتنے پیسے کیوں دیئے جا رہے ہیں؟ کیپٹن عثمان کو 14 لاکھ پر کیوں رکھا گیا ہے۔

اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف! کمپنیاں صرف پنجاب میں ہی نہیں بنائی گئیں بلکہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فیڈرل میں بھی بنائی گئی ہیں اور یہ کمپنیاں میرے آنے سے پہلے بھی بنائی گئی ہیں۔ ہم قومی خزانے کے امین ہیں اور قومی خزانے کی ایک ایک پائی کی حفاظت کر رہے ہیں مجھے چند دن عطا کریں تاکہ میں اپنا موقف بیان کر سکوں…..شہباز شریف مجھے کتے نے نہیں کاٹا ہوا۔جو عوام کے پیسوں کی بچت کی….. چیف جسٹس مجھے نہیں پتہ آپکو کس نے کاٹا یہ زبان آپکو زیب نہیں دیتی ، اس موقع پر ایک سینئر وکیل ظفر کلانوری اٹھے اور کہا کہ یہ عدالتی زبان نہیں ہے، شہباز شریف بولے میں عدالت سے معافی مانگتا ہوں،اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں….. چیف جسٹس دوسرے ملکوں میں ریلوے کی ٹکر ہو جاتی ہے تو وزیر اعلی استعفیٰ دے دیتا ہے آپ حکومتی ملازمیں کو آئوٹ سورس کررہے ہیں…..شہباز شریف میں صرف اپنے دور کی بات کررہا ہوں…..چیف جسٹس میاں صاحب ،یہاں دور ہی آپ کا رہا ہے میں یہاں احتساب کے لئے نہیں بیٹھاجب ضرورت ہوگی تو آپ کو احتساب کے متعلقہ ادارے میں بھیج دیں گے آپ نے کبھی وزیر خزانہ ہی نہیں لگایا….. شہباز شریف وزیر خزانہ پنجاب اپنا کام کررہی ہیں…چیف جسٹس وہ تو بعد میں لگائی گئیں میاں صاحب یہ پیسے واپس ہونے ہیں، آپ نے دینے ہیں تو آپ یہ پیسہ جمع کروائیں گے کمپنی کے سربراہان نے پیسے جمع نہ کروائے تو ہم آپکو نوٹس جاری کرینگے…..شہباز شریف میں نے اپنا مدعا بیان کردیا آگے عدالت جو فیصلہ سنائے منظور ہے نیلم جہلم نندی پور جیسے منصوبوں نے قوی خزانے کو نقصان پہنچایا۔چیف جسٹس آپ کو جس سوال کے لیے بلایا ہے آپ اس کا جواب نہین دے رہے مجھے آپ کے جوابات مطمئن نہیں کررہے…شہباز شریف کرپشن کا ایک دھیلہ بھی نکل آئے تو مجھے سزا دیں، چیف جسٹس آپ بار بار اپنی ذات کو بیچ میں کیوں لے آتے ہیں….. شہباز شریف اگر 70ارب نہ بچائے ہوتے تو آپ آج میرے گلے میں پھندا ڈال دیتے، عدالت نے کہا سوال کوئی جواب کوئی اور دیا جارہاہے… چیف جسٹس، شہباز شریف سے سے اب آپ جا سکتے ہیں شکریہ….. شہباز شریف جی…بنچ اٹھ گیا۔۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں آخر کرپشن کس چیزکا نام ہے عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے حکمران آنکھیں بھی دکھاتے ہیں اور اتراتے بھی پھرتے ہیں آخر کیوں؟

Ilyas Mohammad Hussain

Ilyas Mohammad Hussain

تحریر : الیاس محمد حسین