کمر کس لیں

Karachi Stock Exchange - Attack

Karachi Stock Exchange – Attack

تحریر : انجینئر افتخار چودھری

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ملک ایک بڑے حادثے سے بچ گیا کراچی سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا دہشت گرد مارے گئے اور ا س حملے میں سیکورٹی گارڈ بھی شہید ہوئے ریپڈ ریسپانس فورس کے جوانوں نے سروں میں گولیاں مار کے دہشت گردوں کو کتے کی موت مارا ۔سچ پوچھیں میں نے جب حملے کی فوٹیج دیکھی تو اللہ کا مزید شکر گزار ہوا فوٹیج میں صاف دیکھا جا رہا ہے کہ حملہ آوروں نے بڑی دلیری کے ساتھ مین گیٹ پر سیکورٹی کے عملے کو نشانہ بنایا اور ایک دہشت گرد بڑے آرام سے گاڑی سے نکلا وہ بڑی دیر تک کیمرے کی آنکھ میں رہا جس سے ثابت ہوتا ہے سیکورٹی ایکسچینج کی بلڈنگ میں سیکورٹی مانیٹرنگ روم میں کوئی شخص موجود نہ تھا یا تھا تو اس کا رابطہ کسی سے نہیں تھا یا سیکورٹی لیپ تھا ۔اس شعبے سے تعلق رکھنے والے نفیس الیاس کو امارات میں یہ فلم بھیجی اس کا تجزیہ ہے کہ بے شک ہم اس بات پر خوش ہیں کہ زیادہ نقصان نہیں ہوا لیکن حقیقت سے منہ موڑنا مناسب نہیں ہے سیکورٹی روم میں سپروائزر کی عدم موجودگی یا اس کی غفلت اور دوسرا اگر وہ کسی روم میں موجود بھی ہے تو اس کا ربطہ گارڈز کے ساتھ نہیں تھا ۔ریڈیو کنٹرول سرے سے موجود نہیں تھا اس قسم کی صورت حال میں گیٹ پر گارڈز یا کنٹرول روم میں سپروائزر کا کنکشن آپس میں نہیں تھا دہشت گرد کئی منٹ تک منظر پر رہا۔یہ حملہ مکمل طور پر ناکام بنایا جا سکتا تھا ۔اس مین بڑی غلطیاں سامنے آئی ہیں۔نفیس الیاس پاکستانی ہے اور اس شعبے میں گزشتہ ایک عشرے سے کام کر رہا ہے امارات پولیس کا سرٹیفائڈ اور انعام یافتہ فرد ہے جس کا تعلق ہری پور ہزارہ سے ہے۔

سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر اس دیدہ دلیری سے حملہ ہونا باعث تشویش ہے قوم خوشیاں بے شک منائے کہ ہمارے جوانوں نے سروں پر گولیاں مار کر انہیں جہنم واصل کیا ہے لیکن جو نقصان ہوا ہے اس سے بچا جا سکتا تھا۔

یہاں ہمیں دوسرے عوامل کو مدنظر رکھنا چاہئیے لیکن جو سیکورٹی لیپس ہیں انہیں دیکھنا ضروری ہے۔کیا پاکستان کی پرایئویٹ سیکورٹی کمپنیاں اس لائق ہیں کہ وہ سر وسز دے سکیں جن کا تقاضہ موجودہ حالات کرتے ہیں ۔مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ایسا بلکل بھی نہیں ہے ہم بحثیت قوم سیکورٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہی نہیں ہیں ہم نے توکل کا مطلب یہ رکھاہے کہ جتنی مرضی کوتاہیاں کر لیں پھر بھی یہ کہہ کر مطمئن ہو جانا ہے کہ اللہ کی مرضی تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کام اسی کی مرضی سے ہوتا ہے اگر اتنا ہی توکل ہے تو گھر کا دروازہ اور تالہ کس مرض کی دوا ہے۔ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں بلوچستان لبریشن آرمی ایم کیو ایم لندن اور دیگر داخلی انتہا پسند ابھی ختم نہیں ہوئے ان کی کمر توڑی جا چکی ہے لیکن چل وہ اب بھی رہے ہیں جو بیساکھیاں انہیں بھارت سے ملی ہیں وہ ہم اور آپ سب جانتے ہیں۔

مامے قدیر کے بھانجے اب بھی موجود ہیں بھارت تو صاف کہتا ہے کہ پاکستان کے بعض جرنلسٹ بڑی کام کی چیز ہیں ہم ان سے کام لیں گے فیاض الحسن چوہان نے سچ کہا ہے کہ کہ بی ایل اے ایم کیو ایم لندن اور داخلی انتہا پسند جنگ کا آغاز کر چکے ہیں۔ دوستو!کیا ہم ان دشمنوںکا جواب دینے کے لئے تیار ہیں معاف کیجئے بلکل بھی نہیں بھارت کے ٹی وی چینلز دیکھئے وہاں پاکستان کی جانب سے کچھ لوگ شریک ہوتے ہیں وہ انڈین بولی بولتے ہیں میں دو چار پروگراموں میں گیا ہوں ایک پروگرام میں تو بٹا سنگھ کو جوتا بھی دکھا دیا لیکن میں نے دیکھا ہے یہاں پاکستان سے کچھ لوگ نمستے کرتے نظر آتے ہیں۔

بھارت کے لوگ انہیں پیار سے بلاتے ہیں ۔سچ پوچھئے ہمیں اپنی منجی تلے ڈانگ مارنے کی ضرورت ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک چینل تو مدت سے مسنگ پرسنز کے نام پر بلوچستان کے لوگوں کی مظلومیت کو دکھاتا رہتا ہے میں خود ان کے احتجاجی پروگراموں میں جاتا رہا ہوں اللہ کے فضل سے ان کے درمیان کھڑے ہو کر فوج کی حمائت میں سر عام بولا ہوں مجھے وہ پروگرام بھی یاد ہے جب سردیوں میں جناح ایونیو پر کھڑے ہو کر افراسیاب خٹک عبداللہ عبداللہ اور پیپلز پارٹی کے سفید بالوں والے صاحب کا نام بھول رہا ہوں بشمول آمنہ مسعود کے کہا کہ مسنگ پرسنز سارے ہی مظلوم نہیں ہیں اور ہو سکتا ہے بھارت نے انہیں ورغلایا ہو اور وقتا فوقتا وہ لوگ استعمال کئے جاتے ہوں اور واقعی ایسا ہوا کراچی چائینیز قونصلیٹ گوادر ہوٹل پر حملے میں یہی مسنگ پرسنز بلوچستان لبریشن آرمی کی شکل میں سامنے آئے تھے۔

میں آمنہ مسعود کی بڑی عزت کرتا ہوں میں دو سال پہلے انہیں خبریں کے دفتر لے گیا تھا جہاں ان کا ایک انٹرویو بشارت فضل عباسی سے کرایا بھی تھا جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ وہ پاک فوج کے ساتھ ہیں قارئین ہمیں داخلی دشمنوںپر نظر رکھنی ہے آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک بڑے چینل کے پروگرام میں ما ما قدیر کو مظلوم ثابت کیا گیا اور اینکر نے یہ بھی کہا کہ ما ما قدیر اور ان کے بچوں کے ساتھ ظلم بند کیا جائے ورنہ کل کلاں کچھ ہوا تو انہیں دہشت گرد کہا جائے گا ۔اور یہی ہوا پچھلے دنوں ماما سامنے آ گیا اس نے نریندر مودی سے اپیل کی کہ انہیں باتیں نہیں اسلحہ دیا جائے۔اور اسلحہ انہیں مل بھی رہا تھا اور ملا بھی ہے ۔آج انڈین چینلیز پر چلے جائیے آپ کو وہاں بلوچستان کی آزادی کی بات ہوتی نظر آئے گی۔فیاض چوہان ایک دھبنگ شخص ہے اس نے کہا کہ بھارت لداخ میں تھوبڑا سجھوانے کے بعد پاکستان میں گڑ بڑ کرنے کی سازش کرے گا اور ہم نے دیکھ بھی لیا کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ اسی کی کڑی ہے۔

قارئین ہمیں جان لینا چاہئے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمیں کبھی بھی چین سے نہیں رہنے دے گا اس کی منشاء و مرضی ہے کہ پاکستان برباد ہو جائے اس کے منہ میں خاک اس نے پاکستان کے قیام کے چوبیس سال بعد اسے دو حصوں میں تقسیم کرا دیا اس کے لئے اس نے ملک کے اندر نفرت پیدا کی بھائی کو بھائی سے لڑایا ہمارے ہاں کے کئی دانشور جو فوج کے شروع سے دشمن ہیں انہوں نے اس وقت جلتی پر تیل ڈالا ان میں ایک پنجابی صحافی بھی تھا جو پنجاب یونیورسٹی شعبہ ء صحافت کا سربراہ تھا آزادی اظہار کے نام پر پاکستانی فوج کو بدنام کیا گیا ایسی ایسی کہانیاں گڑھی گئیں جن کا سر پیر نہیں تھا ۔اور پھر کیا ہوا پاکستان ٹوٹ گیا ۔اس آدھے پاکستان کو بھی زندہ نہیں رہنے دیا جا رہا۔

۔مرار جی ڈیسائی نے اندرا گاندھی سے کہا تھا کہ تم نے پاکستان کو توڑ کے دو پاکستان بنا دئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں اگر بنگلہ دیش سے حسینہ واجد آئوٹ ہو جاتی ہے تو بنگلہ دیش دوسرا پاکستان ہے جہاں کی عوام نے بابری مسجد کے انہدام پر ہمارے ملک سے زیادہ مظاہرے کئے جس نے نریندرا مودی کو ڈھاکہ ایئر پورٹ پر نہیں اترنے دیا ۔بنگالی جان چکے ہیں کہ کہ زبان کے نام پر انہیں لڑا کر دھوکہ دیا گیا بھارت کے ساتھ بھارت بھی نہیں ہے سکم بھوٹان نیپال آنکھیں دکھا رہے ہیں شہریت بل کے نام پر بھارت بہت سے حصوں میں بٹنے کے قریب ہے ۔اسے چین نے دھول چٹا دی ہے سچ پوچھئیے بھارت کا بھرم ٹوٹ گیا ہے راہول گاندھی تک نریندرا مودی کو فیل وزیر اعظم کہہ چکے ہیں ۔

مجھے اس بات کا دکھ ہے بھارت کے ہر ٹی وی چینل نے وار ہائوس بنا رکھا ہے اور وہاں سے پاکستان چین کے خلاف دن رات جارحانہ باتیں کرتا ہے پراپوگینڈہ کرتا ہے دوسری جانب پاکستان کے چینل وہ کردار نہیں ادا کر رہے جو انہیں کرنا چاہئے ۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اسمبلی میںصحتمند ہے جبکہ ٹی وی دیکھیں تو حالت نزع کی بات ہو رہی ہوتی ہے معاشی طور پر پاکستان کرونا کے باوجود استحکام کی حالت میں ہے۔بے ضابطگیوں کی فہرست بنی تو پاکستان کی موجودہ حکومت کے دور میں سب سے کم بے ضابطگیاں ہوئیں ۔جھوٹ منافقت کا یہ عالم ہے کہ اب مخالفین کو فواد چودھری اور اسد عمر کی لڑائی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نظر آتا ہے۔لمبی زبانیں اس قدر کے کہ عمران خان کو اس کے سچے دوستوں سے دور کرنے کی بھیانک سازش حکومت بنتے ہی شروع کر دی گئی عامر کیانی اور فیاض چوہان کے خلاف سازش ہوئی چوہان نے تو تیر کے اس آگ کے دریا کو پار کر لیا ہے کیانی بھی پار اترے گا۔اس قدر جھوٹ کے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی گورننس کو نشانہ بنایا گیا اور بزدار کے خلاف توپیں کھول دی گئیں مگر سارے حربے ٹھس ہو گئے پچھلے دنوں ڈاکٹر نبیل کی ٹیم نے وسیم اکرم پلس کا ہیش ٹیگ بھی نمبر ون بنا دیا ہے۔اب کوئی عثمان بزدار پر نہیں بولتا علیم خان نے آ کر شہری محاذ کنٹرول کیا ۔ادھر پی ٹی آئی کے ترجمان اپنا کام دکھا رہے ہیں ۔

کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ ایک وارننگ سمجھیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دشمن کی کمر ٹوٹی ہے تو اس غلط فہمی میں نہ رہیں اس وقت بلوچستان میں سوات فاٹا کی طرح کسی بڑے آپریشن کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔دوسری جانب بلوچوں کی زندگی آسان کریں ایرانی پٹرول کی سمگلنگ کم ہو گئی تھی اب قیمت بڑھنے سے یہ دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔اسے کنٹرول ضرور کریں لیکن بلوچوں کو روزگار دیں ان کے اوپر مزید خرچ کریں پورے بلوچستان کی چودہ سیٹیں ہیں اس پر غور کریں ۔لوگوں کو ڈائریکٹ پیسے دیں سرداروں کی جیبیں گرم کرنے کی بجائے نوٹ غریب بلوچ کے ہاتھوں میں دیں ۔ اللہ پاک اس ملک خداداد پر کرم فرمائے۔کمر کس لیں دشمن نے کس لی ہے۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری