کووڈ بحران سے جرمنی کیوں نہیں نمٹ پا رہا ؟

Coronavirus

Coronavirus

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی اس وقت کووڈ انیس کی چوتھی لہر کی گرفت میں ہے اور لگتا ہے کہ متعلقہ حکام پھر پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکام اور سیاستدان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ نہیں پائے۔

ماہرین کے مطابق کووڈ انیس کی چوتھی لہر کی لپیٹ میں آنے کے بعد بھی جرمن رہنما اور متعلقہ حکام کا رویہ ایک اوسط درجے کی ٹیم جیسا ہے، جو اصل مسئلے پر پوری توجہ مرکوز کرنے سے قاصر ہے۔

جرمنی میں کورونا انفیکشنز کی یومیہ تعداد پچاس ہزار سے زائد

اب اگر بوسٹر لگانے کے معاملے کو لیا جائے تو اس پر فیصلے لینے میں غیر ضروری تاخیر کی گئی۔ بزرگ افراد کے کیئر ہومز میں لازمی کورونا ٹیسٹنگ کا معاملہ ابھی بھی زیر غور ہے۔ ناقدین کے مطابق کورونا ویکسین لگانے کا سلسلہ بھی جمود کا شکار ہے اور اس سست روی پر حکام توکل کیے ہوئے ہیں۔

جرمنی کے شہر کیل میں واقع کرائسس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر فرانک روزیلیب کا کہنا ہے کہ جرمنوں میں فوری ردعمل ظاہر کرنے کا فقدان ہے اور ان کا یہی جبلتی انداز بعض اوقات کامیابی کی کلید بھی بن جاتا ہے۔

روزیلیب کے مطابق جرمن حکام ہر طبقے کو خوش کرنے کو کوشش میں ہیں، ان کو بھی جو کورونا وارن ایپ کے ساتھ ساتھ ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے فکرمند ہیں اور ان کو بھی جو ویکسین لگانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور زیادہ انفیکشنز کے علاقوں میں ٹُو جی کے قانون کا نفاذ (ویکسین شدہ اور اور جن کو کورونا ہو چکا ہے) بھی تاخیر کا شکار ہے۔

اس کے علاوہ ابھی تک بار، کیفے اور سینما گھروں میں ویکسین لگوائے بغیر داخل ہونے پر پابندی کا معاملہ بھی حل نہیں ہو سکا ہے۔ روزیلیب کے مطابق ایسے رویوں سے معمولات زندگی اور کاروبار مملکت نہیں چلتے۔

جرمنی میں انفیکشنز کی شرح میں غیر معمولی اضافہ
جمعرات گیارہ نومبر کو جرمن حکام نے بتایا کہ سارے ملک میں پچاس ہزار سے زائد نئی انفیکشنز کا اندراج کیا گیا اور ایک ہفتے میں شرح دو سو انچاس رہی ہے۔

یہ شرح کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ رواں برس موسم گرما میں طبی سائنسدان اور محققین برلن اور تمام ریاستوں کی حکومتوں کو متنبہ کرتے رہے کہ موسم سرما میں وبا کی شدت بڑھ جائے گی لیکن کسی بھی مقام پر ان انتباہوں کو وقعت نہیں دی گئی۔ اس تناظر میں ویکسینیشن بھی سست ہے جب کہ دعوے یہ ہیں تمام لوگوں کے لیے ویکسین کا ذخیرہ موجود ہے۔

فرانک روزیلیب کا کہنا ہے کہ جرمنی اپنی غلطی دہرا نہیں رہا کیونکہ اس ملک میں سیکھنے کا عمل سست اور قوتِ نافذہ بھی شدید نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمنی میں غیر مقبول فیصلے اُسی وقت لینے کی روایت ہے جب بہت ہی لازمی نا ہو جائے۔

جرمنی کے ہمسایہ ملک فرانس میں صدر ایمانوئل ماکروں نے کیئر کرنے والے ملازمین کے لیے ویکسین لازمی قرار دی اور یکساں کورونا وائرس پاس کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ویکسینیشن کے عمل میں بارہ سے سترہ برس کے نو عمروں کو بھی شامل کیا۔ اسی طرح اٹلی میں ویکسین کے بغیر کام کے مقام میں داخل ہونے پر بھاری جرمانے کا نفاذ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب جرمنی میں کووڈ انیس کی انفیکشنز میں اضافے کی وجہ سے ملک اور مقامی علاقوں کے نقشے سرخ یعنی خطرے کے دائرے میں ہیں۔

ابھی تک صرف سڑسٹھ فیصد افراد کو ویکسین لگائی گئی ہے اور یہ انفیکشنز میں اضافے کو روکنے کی کوئی بڑی رکاوٹ ثابت نہیں ہوئی۔ کرائسس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے مطابق سیاستدان اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کی حمایت سے کسی سخت قانون کا نفاذ، ان کے لیے دھبہ بن سکتا ہے جو ان کے سیاسی کیریئر کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔