جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

تحریر: لقمان اسد

یہ ماہِ دسمبر ہے اور آج سے تیرہ برس قبل اسی ماہ دسمبر کی 27 تاریخ کو وطن عزیز کے پُررونق ،اہم اور قدیمی شہر راوالپنڈی کے لیاقت باغ میں پاکستان کی بیٹی ،دُختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کے ایک سفاکانہ حملے میں شہید ہو گئی تھیں ۔ بلاشبہ انسان مرنے کے لیے ہی پیدا ہوتا ہے لیکن شاعرِ انقلاب فیض احمد فیض نے کہا تھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے جس دھج سے ،جس جرآت ،بہادری او ر حوصلے سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا یقینا اوربلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے جینے کے انداز کی ماننداُن کی شہادت کا انداز بھی اُن کے نام کی طرح بے مثل اور بے نظیر ہی ٹھہرا ہے۔سیدنا علی المرتضیٰ کا قول ہے “زندگی اس طرح بسر کروجب تک زندہ رہو لوگ تمھارے ملنے کے لیے بے تاب رہیں اور جب اس فانی دنیا کو چھوڑ کر جائوتو لوگ تمھیں بے تابی سے یاد کریں”۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی باصلاحیت اور بہادر بیٹی بے نظیر بھٹوسیدنا علی المرتضیٰ کے اس قول پر پورا اترتی ہیں ۔

وہ زندہ رہیں تو پاکستانی عوام اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزار ہا میل کا سفرطے کر کے اُن کے جلسہ گاہوں تک پہنچتے رہے ۔ انھوں نے شہادت کو قبول کیا تو اُن کی شہادت کے بعد پاکستان میں بسے والے لوگوں میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں جس کا دل اِس واقعہ کو یاد کر کے افسردہ نہ ہو تا ہو اور جس کی آنکھ اس الم ناک اور اندوہناک واقعہ پر اشک بار نہ ہو ئی ہو ۔ ماسوائے اُن وطن دشمن افراد کے جنہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا یا جو لوگ اس قبیح فعل کو انجام دینے کی سازش میں شریک تھے ۔محتر مہ بے نظیر بھٹو لا زوال قائدانہ صلاحیتوں کی مالک تھیں ۔وہ عمر بھر آمریت کو للکارتی رہیں ۔ اُن کا طرز سیاست بھی ایسا تھا جس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے ۔

وہ سٹیج پر کھڑے ہو کر گھنٹوں اپنے عوام سے مخاطب رہتیں اور جلسہ گاہ میں موجود ہر شخص اُن کی ہر بات کو تہہ دل سے تسلیم کرتا ۔وہ احترام اور عقیدت سے جب اپنے والد کا ذکر کرتیں تو فضا”جئے بھٹو”کے فلگ شگاف نعروں سے گونجنے لگتی اور ہر شخص کی زبان سے بے ساختہ یہ جملے ادا ہونے لگتے “زندہ ہے بھٹو زندہ ہے”۔محترمہ آٹھ سالہ طویل مدت کی جلا وطنی کے بعد جب 18اکتوبر 2007کوروشنیوں کے شہر کراچی پہنچیںتو لاکھوں کی تعدا دمیں اُن کے چاہنے والوں نے اُن کافقیدالمثال استقبال کیا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اٹھارہ اکتوبر کو محتر مہ بے نظیر بھٹوکا استقبال کرنے والوں کی تعداد 25سے 30لاکھ کے قریب تھی ۔ پاکستان آمد سے قبل ابو ظہبی میں انھوں نے ایک پرُ ہجوم پریس کانفرنس میں اپنے قتل کئے جانے کی سازشوں کے پیش ِ نظر طالبان اور القائدہ کے حوالے سے کہا کہ “مجھے یقین ہے وہ لوگ مجھے قتل نہیں کریں گے اس لیے کہ دینِ اسلام عورت کے قتل سے منع کر تا ہے “۔اُن کی وطن آمد کے پہلے ہی دن اُ ن کی گاڑی کے قریب ایک خطر نا ک بم دھماکہ ہو ا جس میں 150کے قریب افراد شہید ہو ئے اور محترمہ اس جان لیوا حملے میں بال بال بچ گئیں ۔

اس حملہ کے بعد اُنھوں نے جنرل پرویز مشرف کو خط لکھا اور واقعہ کی شفاف تحقیقات پر زور دیااور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیاکہ سانحہ کے ذمہ داران کونہ صرف منظر عام پر لایا جائے بلکہ قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سز ا دی جائے ۔اگر18اکتوبر کو پیش آنے والے “سانخہ کارساز”کی تحقیقات کا دائرہ کار وسیع پیمانوں پر بڑھا کر اس کی تحقیقات نیک نیتی سے کرائی جاتی تو “سانخہ لیاقت باغ”جیسے کرب ناک المیے کا وقوع پذیر ہونا نا ممکن بنایا جا سکتا تھا۔محتر مہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے بھٹو خاندان کی پاکستان ،جمہوریت اور پاکستانی عوام کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی لازوال داستان کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا ۔محتر مہ بے نظیر بھٹو ایسی باکمال سیاسی شخصیت تھیں کہ جنہیں عالمی سیاست کے پیچ خم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔انھوں نے ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کیا اور اس کے حصول میں کامیاب رہیں اُن کے اس فانی دنیاسے رُخصت ہو جانے کے بعد سیاسی خلاکو پُر نہیں کیا جا سکا لیکن وہ پاکستان کے عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

انھیں یہ علم تھا کہ انھیں عوامی اور جمہوری جدوجہد کے راستے سے ہٹانے کیلیے ملک دُشمن عناصر نے مکمل طور پر منصوبہ بندی کر لی ہے اور وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں کہ کسی بھی وقت انھیں ٹارگٹ کلینگ کا نشانہ بنا یا جا سکتا ہے مگر انھوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتی ہیں،موت اللہ کے حکم سے آنی ہے اور جو رات قبر کے لیے متعین ہے وہ قبر کے باہر نہیں آ سکتی ۔ اس لیے سانحہ کارساز کے بعد بھی انھوں نے بڑھ چڑھ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا ۔وہ زندہ رہیں تو بھی بے مثل اور بے نظیر بن کر اور جداہوئیں تو تب بھی بے مثل اور بے نظیر ٹھہریں ۔ وہ حیات تھیں تو تب بھی اُن کے پارٹی ورکر سر اُٹھا کر جیتے تھے ،وہ شہید ہو کر مزید اپنے ورکرز کا سر فخر سے بلند کرگئیں۔

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

ملک کے لیے تڑپنے والی ،عوام کے لیے بے تاب اور غم ناک رہنے والی “بی بی”قائد بی بی ” اب راج کرے گی بے نظیر ،چاروں صوبوں کی زنجیر ،بے نظیر ،بے نظیر،وزیر اعظم بے نظیر اب کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گی ۔ وہ ہمیشہ کے لیے اپنے پرستاروں کو سوگوار چھوڑ کر چلی گئی ہیں ۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر: لقمان اسد