بم اور دم

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : محمد ناصر اقبال خان

انسان قدرتی آفات کاراستہ نہیں روک سکتا لیکن مناسب اور بروقت منصوبہ بندی سے خود کو کافی حد تک ان کے نقصانات سے بچا سکتا ہے جبکہ انسانوں کے ہاتھوں جو سانحات رونما ہوتے ہیں انہیں روکنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔اگر کسی دریا میں پڑ جانیوالے شگاف کو شروع میں مضبوطی سے بندکر دیا جائے توشہر اور شہریوں کو سیلاب سے بچایا جا سکتا ہے۔حادثات اور سانحات خاموشی سے رونما نہیں ہوتے بلکہ یہ کئی بار دستک دیتے ہیں لیکن ان کے قدموں کی چاپ ہرکوئی نہیں سن سکتا۔ سی سی پی اولاہور عمر شیخ کی طرف سے مسلسل اپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں کو دھمکانے اورانہیںگالیاں دینے کے شرمناک واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرر ہے ہیں کہ اگر اس انتہاپسند شخص کو حساس منصب سے فوری نہ ہٹایا گیا توخدانخواستہ لاہورمیں سانحہ پی آئی سی سے بڑاسانحہ پیش آسکتا ہے۔

ہمارے ہاں حکمران دلخراش واقعات سے بچائوکیلئے بروقت اوردرست تدابیر اختیارکرنے کی بجائے ڈیزاسٹر کاانتظار کرتے اورجب بندٹوٹ جائے توپھرہڑبڑا کراٹھتے ہیں لیکن اس وقت تک پل کے نیچے سے بہت ساپانی گزرچکاہوتا ہے ۔تبدیلی سرکار والے ورثہ میں ملے بحرانوںپرقابوپانے کی بجائے مقروض ملک میں مزید بحران پیداکرتے چلے جارہے ہیں۔مہنگائی کے” بم” سے عوام کا”دم” نکل گیا ہے۔تبدیلی سرکار نے قوم کومایوسی ،محرومی اوربددلی کے سواکچھ نہیں دیا۔میں” تبدیلی سرکار”کو”تبادلے سرکار”لکھتا ہوں کیونکہ اناڑی کپتان اوران کے نادان ٹیم ممبرز پولیس سمیت مختلف شعبہ جات میں بہتری کیلئے دوررس اصلاحات کی بجائے پروفیشنل آفیسرز کے دھڑادھڑ تبادلے کررہے ہیں جبکہ زیرتربیت عثمان بزدار نیب کے راڈار میں آنے کے باوجود اپنے منصب پربرقرارہے۔پنجاب میں گڈگورننس کیلئے بزدار کی تبدیلی ناگزیر تھی اورناگزیر ہے لیکن کپتان کے ہاتھوں صوبائی محکموں میں مسلسل اکھاڑ پچھاڑ نے اس صوبہ کو”اکھاڑہ “بنادیابلکہ اس کا”کباڑہ” کردیا ہے۔

وزیراعظم کویہ بات سمجھناہوگی ہزاروں”بزدار” ایک “بردبار” کامتبادل نہیںہوسکتے۔عمران خان نے عثمان بزدارمیں جوقابلیت دیکھی وہ آج تک ہماری نگاہوں سے کیوں پوشیدہ ہے۔کپتان اپنے ان ٹیم ممبرز کے ساتھ اپوزیشن اورمافیازکونہیں ہراسکتے ۔عمران خان کواپنے وعدے وفااورڈیلیورکرنے کیلئے اپنامائنڈسیٹ اورپنجاب کامنتظم اعلیٰ بدلناہوگا ۔کپتان اپنے نااہل اورناتواں ٹیم ممبرز کے ساتھ طاقتوراپوزیشن کامقابلہ نہیں کرسکتے ۔نوازشریف کاپاک فوج کے سپہ سالارجنرل قمرجاویدباجوہ پرانگلی اٹھاناتبدیلی سرکار کی نااہلی اورکمزوری کاشاخسانہ ہے۔ایک تاحیات نااہل ،مفروراورعدالت کااشتہاری شخص کس حیثیت میں پاکستان کی دفاعی قیادت سے جواب یاحساب مانگ رہا ہے۔نوازشریف میں دم ہے توریاست کوبلیک میل کرنے کی بجائے اپنے خلاف مقدمات کاسامنا کریں ۔پاک فوج کادشمن پاکستان کا دوست اورمحب نہیں ہوسکتا۔پاک فوج کے ترجمان کونوازشریف کی کسی بات پرتبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان عناصر کوجواب دینے کابیڑا قلم قبیلے نے اٹھایاہوا ہے ۔

عمران خان کی میڈیا ٹیم میں شامل زیادہ ترلوگ سیاسی یتیم اورچلے ہوئے کارتوس ہیں،انہیں اوران کے بیانات کو سنجیدہ نہیں لیاجاتا۔ تبدیلی سرکار نے نہ صرف مردہ اپوزیشن کوزندہ اورمتحد کردیا بلکہ فیاض الحسن چوہان کی صورت میںنادان ترجمان اپنے احمقانہ بیانات سے اپوزیشن کوکائونٹر کرنے کی بجائے الٹااس کی سیاسی پوزیشن کومزید بہتر کررہے ہیں ۔ فیاض الحسن چوہان کاہربیان بیک فائرکرجاتا ہے، عمران خان نے اپنے سینکڑوں حامیوںکوترجمان بنادیا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی تاثیر بھرے انداز سے بات کرنے کاہنر نہیں جانتا۔حکومت اوراپوزیشن میں ایساکوئی بھی نہیں جوبات کرے تووہ عوام کے قلوب میں اترجائے ۔ اہل سیاست یادرکھیںنظام کی تبدیلی کیلئے رواداری اوربردباری کی ضرورت ہے،حکومت اوراپوزیشن کومحاذآرائی سے گریزکرناہوگا ۔متحدہ اپوزیشن یا پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جس کسی نے نوازشریف کے بیانیہ کی تائید کردی وہ عوا م کے غضب کا نشانہ بنے گا۔

تبدیلی سرکار پولیس کلچر تبدیلی کرنے کے حق میں نہیں ورنہ فرض شناس،فائق اورمشاق محمدطاہر کومحض ایک ماہ بعد آئی جی پنجاب کے منصب سے نہ ہٹایاجاتا۔ مستعد اورنیک نام محمدطاہرکوہٹاناتبدیلی سرکار کی ہٹ دھرمی تھی۔آج اگرمحمدطاہرآئی جی ہوتے توپنجاب پولیس میں روزانہ کی بنیادپرٹرانسفر پوسٹنگ کاسونامی نہ آتا۔ شعیب دستگیر آئی جی تعینات ہوئے توانہوں نے کسی سوچ بچاراورمستندمعلومات کے بغیر اندھادھندتبادلے کئے ۔لاہور کے انتہائی زیرک ،سنجیدہ اورفہمیدہ سی سی پی اوبی اے ناصر کوکسی جواز کے بغیرہٹادیا اورپھر پی آئی سی میں جس اندوہناک سانحہ نے جنم لیا اس کازخم آج بھی تازہ ہے۔بی اے ناصر بہت منجھے اورسلجھے ہوئے انداز سے ڈیلیورکررہے تھے،ان کے ہاتھوں ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں سمیت شہریوں کی عزت نفس محفوظ تھی۔ “عزت دار” وہ ہوتا ہے جس کے پاس بہت عزت ہو۔قانون فطرت ہے عزت اس کوملے گی جودوسروں کوعزت دے گا۔

بی اے ناصر ایک عزت دارکی حیثیت سے دوسروںکوعزت دیتے اورناجائزسزائوں سے گریزکرتے تھے ، بی اے ناصر آج جہاں بھی ہیں اپنے اہلکاروں کی دعائوں اوروفائوں کامحور ہیں۔لاہور پولیس کی قیادت کرتے ہوئے اپنی قائدانہ صلاحیت اورانتظامی قابلیت منوانے والے سابقہ نیک نام سی سی پی اوکیپٹن(ر )محمدامین وینس بھی اپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں کی محکمانہ کارکردگی پرہرگز سمجھوتہ نہیں کرتے تھے مگراپنے ٹیم ممبرز کے ساتھ ان کارویہ بہت پیشہ ورانہ اوردوستانہ تھا۔ایڈیشنل آئی جی کیپٹن(ر )محمدامین وینس کی آبرومندانہ ریٹائرمنٹ کے کئی ماہ بعد بھی ان کی ٹیم میںکام کرنیوالے اہلکار ان کے ساتھ والہانہ محبت اورعقیدت کادم بھرتے ہیں ۔آج شہرلاہور کے شہریوںسمیت پولیس آفیسرز اوراہلکار ہرصبح بیدارہونے کے بعد یہ دعا ضرورکرتے ہیں “اے اللہ کسی نیک دے متھے لگانا” ،ان میں سے کوئی بھی عمر شیخ کاسامنا نہیں کرناچاہتا۔جب تک عمر شیخ اپنے اختیارات کاناجائزاستعمال کرتے ہوئے اپنے ماتحت آفیسرز کی عزت اچھالتارہے گاتوکوئی ایک اہلکار بھی سچے دل سے اس کی عزت نہیں کرے گا۔وہ پولیس آفیسر یااہلکار جس کودوران ڈیوٹی شرپسندعناصر گولیاں مارنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں وہ جب سی سی پی اوعمر شیخ کے اجلاس میں جاتا ہے تواسے وہاں گالیاں سننا پڑتی ہیں۔عمر شیخ کوترقی کیوں نہیں دی گئی اس کی وجوہات اب ہرکسی کے علم میں ہیں لہٰذاء وہ دوسروں کوگالیاں اورسزائیں نہیں دے سکتاکیونکہ اس کااپنادامن صاف نہیں ۔عمران خان نے جس عمر شیخ کی ترقی کی تجویر مستردکرنے کے بعد اسے لاہورپولیس کی اصلاح کاٹاسک دیا اسے دوسروں سے زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔آئی جی پنجاب دھڑادھڑ تبادلے کررہے ہیں جبکہ ایس ایس پی آپریشنزلاہورکی سیٹ خالی ہے،اس منصب کیلئے پروفیشنل اورفرض شناس ایس ایس پی محمدنوید موزوں رہیں گے ۔

سابقہ آئی جی شعیب دستگیر نے جس طرح عجلت بلکہ مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کرتے ہوئے بی اے ناصر کوہٹایاتھا،انہوں نے یقینا اس کی سزاعمر شیخ کی صورت میں بھگت لی ہے جبکہ لاہور پولیس کے آفیسرز اوراہلکار بھی مایوسی اور بددلی کے ساتھ اس سزاکا سامناکر رہے ہیں ۔تبدیلی سرکار کے ہرایک ناقص بلکہ متنازعہ فیصلے کی قیمت بیچارے عوام کو بھی چکاناپڑرہی ہے ۔بدانتظامی اوربدنظمی میں بہت گہرارشتہ ہے لیکن شروع دن سے کپتان کادھیان اس طرف نہیں کیونکہ موصوف حکومت نہیں بلکہ سیاست کررہے ہیں اور24برس میں بھی انہوں نے سیاست نہیں سیکھی جبکہ ایساکوئی بھی انسان جو سیاست سے نابلد ہووہ ریاست کے انتظامی امور احسن انداز سے انجام نہیں دے سکتا ۔ عثمان بزدار اورفیاض الحسن چوہان کی طرح عمر شیخ بھی کپتان کاحسن انتخاب ہے اوراس انتخاب کاعذاب عوام بھگت رہے ہیں۔ “عمر شیخ” کاجارحانہ اورعاقبت نااندیشانہ رویہ بتارہا ہے اس کے منصب کی “عمر “زیادہ طویل نہیں ہوگی،کیونکہ ہرعہد کے فرعون کیلئے کوئی موسیٰ ضرورہوتا ہے ۔

سی سی پی اولاہور کی حیثیت سے تقرری کے بعد جس طرح عمر شیخ کا نام تنازعات میں آرہا ہے اس کے بعد” وہ زیادہ ناکام ہے یازیادہ بدنام ہے” اس بات کافیصلہ کرناآسان نہیں ۔سی آئی اے لاہور کے سابقہ انتھک اور متحرک سربراہ ایس پی عاصم افتخار نے اپنے کام سے منوالیا وہ لاہورپولیس کاسرمایہ افتخار ہیں،سانحہ موٹروے کے مرکزی ملزم عابدملہی کی گرفتاری کاکریڈٹ عاصم افتخارسے کوئی نہیں چھین سکتا۔عمر شیخ کے منفی رویے کیخلاف عاصم افتخار کا ایک عزت دار انسان کی حیثیت سے ری ایکشن فطری اورجائز تھا،عاصم افتخار لاہورپولیس کے معتوب اہلکاروں کیلئے مزاحمت کااستعارہ اور ہیروبن گئے۔ ایس پی عاصم افتخارکی ٹرانسفر انتظامی نہیں انتقامی بنیادوں پرکی گئی،آئی جی انعام غنی ضرورت سے زیادہ مصلحت پسند ہے۔انعام غنی کی صورت میں کمزورترین آئی جی جبکہ عمر شیخ کی شکل میں زبان دراز سی سی پی او آج تک نہیں دیکھا ۔سی سی پی او عمر شیخ اپنے ماتحت آفیسرز کوگالیاں دیتا جبکہ کمزورترین آئی جی انعام غنی خاموشی سے انہیں ٹرانسفر کرتاجائے گا۔عمر شیخ اورعاصم افتخار کے درمیان حالیہ تلخی کے بعد ایس پی سی آئی اے عاصم افتخار کی ٹرانسفر عمر شیخ کی جیت نہیں بلکہ شکست ہے ۔سچائی یہ ہے پروفیشنل عاصم افتخارکمبوہ کواس گھٹن سے نجات مل گئی جوعمر شیخ کے آنے سے لاہورپولیس کامقدربن گئی ہے،تاہم آئی جی انعام غنی نے عاصم افتخارکوتبدیل کرکے جوپیغام دیا اس کے مطابق اب ہرکسی کوعمر شیخ کی گالیاں خاموشی سے سہناہوں گی اورجس کسی نے مزاحمت کی اسے ٹرانسفر کردیاجائے گا لیکن میں سمجھتاہوں جس باضمیر آفیسرکوملازمت کی بجائے اپنی عزت نفس عزیزہوگی وہ مزاحمت کاراورباوقارعاصم افتخارکی تقلیدکرناپسندکرے گا۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan

Muhammad Nasir Iqbal Khan

تحریر : محمد ناصر اقبال خان