کیا خواب ہوئے ؟

 Coronavirus

Coronavirus

تحریر : شاہ بانو میر

اے اللہ میں پناہ چاہتا ہوں
نعمت کے زائل ہونے سے
اور
تیری عافیت کے منتقل ہو جانے سے
تیری گرفت کے اچانک آجانے سے ٌتیری ہر قسم کی ناراضگی سے
آمین

ابھی ابھی کی بات ہے ایک مہینہ پہلے
ہنستے کھیلتے بے فکری اور بے ساختگی تھی
بیٹی کی شادی خیر و عافیت سے انجام کو پہنچی
کئی مراحل میں جانے والے ہم سب واپس بھی مرحلہ وار پہنچے
اور
ہم بطور والدین سب کے بعد واپس آئے
کسی قسم کا ائیر پورٹ پر ہیجان نہیں تھا
البتہ عملہ کافی ایگریسو اور ہڑبڑی کا شکار تھا
معلوم ہوا کہ
اس عملے میں آرمی کے آفیسرز بھی ہیں
جن کے سامنے ان کی کوئی دال نہیں گل رہی
دال اک گلنا پاکستان میں ہرکوئی جانتاہے
بہر کیف فلائٹ اٹلی دو گھنٹے کیلیۓ رکی
وہاں سے بیٹھنے والے پسنجر نے ہسبنڈ سے بات کی کہ
وہاں ائیر پورٹ پر کرونا کیوجہ سے بہت سختی ہے
کرونا کا نام اٹرتا اڑتا پاکستان میں سنا تھا
لیکن
نہ تو سنجیدہ انداز میں کسی نے بتایا اور نہ ہی گھر میں ایسا موقعہ تھا
کہ
اس کو غور سے سمجھا جاتا
فرانس آتے ہی گھر کا سامان چیک کیا
تو کافی چیزوں کے لانے کی ضرورت تھی
بیٹے سے بات کی تو
اس نے سختی سے کہا
آپ ہرگز باہر نہیں جا سکتیں
جو چاہیے مجھے لسٹ دیں
میں لاؤں گا
بیٹا چھوٹا بھی ہے اور لاڈلا لاپرواہ بھی
پہلی بار جان چرانے والے بچے کو اس قدر تحکمانہ انداز میں بات کرتے
سن کر دل کو کچھ تکلیف ہوئی
میرے چہرے سے ناراضگی کا اظہار محسوس کرتے ہی
بہت پیار سے بولا
آپ کے لئے باہر بہت رسک ہے کرونا سے احتیاطی تدبیر یہی ہے
کہ
آپ نے گھر سے باہر نہیں جانا
سبحان اللہ بے ساختہ آسمان کی جانب متشکرانہ نگاہوں سے دیکھا
اور وہ کم بخت میری مرضی والی بے نور چہروں والی بھِیڑ یاد آئی
کیسی احمق ہیں
اپنے رشتے اپنے تحفظ اور اپنے رب کی اس قدر قیمتی عطا پر
ناشکرا پن کرتے ہوئے
کس قسم کی لایعنی احمقانہ اور بے وقوفانہ مطالبات کرتی ہیں
الحمد للہ
بیٹے پر فخر اور اللہ کی ذات پر شکر ہوا
یوں سنجیدہ انداز میں کرونا گھر میں ذکر بنا
شادی کی مبارکباد کے فون تھے کچھ مہمان تھے
لیکن
ہر گفتگو میں کرونا کا ذکر ضرور رہا
اس سے پھیلتی ہوئی چین میں بربادی اور انکے حفاظتی اقدامات قابل تحسین ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا دن رات ایک کرنا
اور اس میں کئی جان سے بھی گئے
قومی ہیرو قرار پائے
ایسے میں مجھے وہ پسنجر ضرور یاد آیا جو اٹلی سے میاں صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا
فون پر مسلسل باتیں کرتا ہوا لاپرواہ خطرے سے عاری
اور
چند دنوں کے اندر
چینی لوگوں نے اپنے ڈاکٹرز اور حکومت کے سخت اقدامات کو اپنا کر
اتنی بڑی آبادی والے صوبے ہوان کو کم سے کم اموات کے ساتھ اس ظالم وائرس کو کنٹرول کر لیا
لیکن
اٹلی کے شہری
رقص و سرور کے رسیا
سیرسپاٹے کے عادی
زندگی میں سہولیات ہوں تعیشات ہوں تو صبر اور ٹھہراؤ ختم ہو جاتا ہے
یہی ھال اس قوم کا ہوا
کھانے پینے کی افارط شراب و سرور کی کھلے عام محفلیں سے دوری زندگی میں ہی موت تھی
لہٰذا
بیماری کی سنگینی کو غیر سنجیدگی سے لیتے ہوئے
ہر احتیاط کو نظر انداز کرنے کا آج ہولناک انجام دنیا دیکھ رہی ہے
لاشیں یوں اٹھ رہی ہیں جیسے انسان نہیں
کوئی ارزاں سی چیز ہو
نعمتوں کا زوال اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب دینے والے کا شکر دلوں سے نکل جاتا ہے
کرونا پھیلتا ہوا فرانس روس انگلینڈ ہالینڈ بیلجئیم امریکہ الغرض کون سا کوئی ملک ہے
جہاں اس نے پنجے نہ گاڑے ہوں
لیکن
آپ سب مùجھ سے اتفاق کریں گے
انسانیت کے ناطے ہمیں ہر ملک کے متوفین تکلیف دیتے تھے
لیکن
جان نکل گئی روح کانپ گئی
اور
آنسوؤں سےلبریز نگاہیں وہ روح فرسا منظر دیکھ رہی تھیں
کہ
کالی خانہ کعبہ میں پرندے طواف کر رہے تھے
سبحان اللہ تو کہا
لیکن
اپنی بد نصیبی پر دل رویا بھی
آج رب ہم سے روٹھ گیا
نہ وہ کعبہ چھو سکیں گے
نہ اس کے دروازے کو تھام کر اللہ کو منائیں گے
نجانے ہم کونسی دعائیں کر آئے کہ
ہم سے کعبہ ہی دور ہو گیا
کعبہ کو تھام کر دیوار کو چوم کر ہچکیوں سے
جو جو اپنے رب سے باتیں کیں
وہ کسی سے کبھی نہیں کی تھیں
آنسوؤں نے اپنا حق ادا کیا
کہ
یہی تو وہ جگہہ ہے جہاں برسو اور خوب برسو
نہ کوئی آیت یاد نہ کوئی دعا
طواف تھا اور آنسوں کے ساتھ بار بار بے یقینی کی کیفیت
اللہ نے مجھے اس قابل سمجھا
اپنا مہمان کیا؟
ایسی عزت ایسسی مہمانی اور میں؟
عجب کیف آگیں لذت تھی زبان پر دعائیں تھیں
لیکن یہ سچ ہے
کہ نگاہیں بار بار کعبہ پھر آسمان کی جانب تھی
دوسرا عمرہ مدینہ سے واپسی پر جو کیا وہ قدرے ہوش میں تھا
اور تمام اراکین کی احتیاط تھی
لیکن پہلا تو قرب کے ایسے مراحل سے گزار گیا
جس کیلئے خود کو کبھی اہل ہی نہیں سمجھا تھا
کیسا سکون تھا
کیسا اطمینان تھا
حطیم میں نوافل کی دائیگی
سبحان اللہ
جم غفیر اور مصمم ارادہ
نوافل بھی ادا ہوئے اور دعائیں بھی کیں
وہ کعبے کے فرش کی ٹھنڈک آب زمزم کی لذت
ابراہیم ؑ اور اسمعیلؑ کا جبل مکہ سے پتھروں کا لانا اور باپ کا تعمیر کرنا بیٹے کی مزدوری کرنا
نجانے کیا کیا پڑھا ہوا ذہن میں گونج رہا تھا
وہ سیاہ باوقار غلاف
لپٹا بارعب دلوں کو کھینچتا ہوا حسین سیاہ غلاف
نکلتے وقت بھی جیسے کوئی واپسی کی ضد کئے جائے
نہ نگاہوں سے کبھی دور ہوا اور نہ دل سے یوں بس گیا
اس کعبے کا حسین پیکر
کہ
اس کے بعد یہ دنیا اس کے حسین نظارے اور اس کی تمام نعمتیں ہی ہیچ ہو گئیں
جانے سے پہلے جو محبت تھی وہ دیدار کی متلاشی تھی
لیکن
دیدار کعبہ کے بعد جو والہانہ محبت اپنے رب کی ذات سے ہوئی
اب محفلیں بھی ہوں
تو دل میں وہی بستا ہے
زبان جواب سامنے بیٹھے کسی انسان کو دیتی ہے
اور
دل
اسی کا ورد اس کا ذکر کرتے ہوئے وجدان میں جھومتا ہے
زندگی کہاں سے کہاں آگئی
دنیا کی رونقیں صفر
آج ابھی ایک وڈیو نگاہ سے گزری کہ
ما شاءاللہ
کعبہ پھر سے عمرہ زائرین کیلئے کھول دیا گیا ہے
لیکن
جب وڈیو کو غور سے دیکھا
تو دل جیسے مرجھا گیا
وہ کعبہ جس کا غلاف جس کی دیوار
اللہ کے قرب کی امین تھی
اب وہاں تک رسائی نہیں
کعبے کے گرد ایک دیوار بنا دی گئی ہے
جو قدرے فاصلے پر ہے
طواف طویل ہو گیا
اس کی کسی کو پرواہ نہیں
فکر اور لمحہ فکریہ یہ ہے
کیا ہم محروم ہو گئے
اس لمس سے اس دیوار سے چمٹ کر اپنے گناہوں کی
دہائیاں دے دے کر اپنے رب کو منانے سے؟
کعبہ دور ہو گیا
جو پاس تھا جو میرا تھا
ہم سب کا تھا
نجانے کیا ہوا ؟
وہ ودر ہو گیا
اب صرف دیدار ہوگا
نہ بوسہ دیا جا سکے گا
منا لیں اپنے رب کو عاجزی اور دعا سے
ہر مسلمان کی رسائی
اپنے گھر کے مبارک درو دیوار تک عطا فرما
کہ
مالک تیرا گھر اسکے در و دیوار
کیا خواب ہوئے ؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر