کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی

Dream

Dream

کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی

ان سے پھر اپنی کوئی رفاقت نہیں رہی

شاید اسے ہماری بھی حاجت نہیں رہی

کچھ خواب تھے جو میرے وہ سارے بکھر گئے

کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی

کہتی تھی تم کو میں نہ کبھی بھول پاؤں گی

باتوں میں اس کے کوئی صداقت نہیں رہی

رسوا کیا تھا جس نے وہی پوچھتے ہیں اب

لہجے میں ارشیؔ تیرے نزاکت نہیں رہی

ممکن نہیں کبھی اسے دل میں بسائیں پھر

دل پر ہمارے اس کی صدارت نہیں رہی

صحرا میں اک شجر مجھے اس وقت ہی ملا

جب دھوپ میں ذرا بھی تمازت نہیں رہی

آئے ہیں پاس اب مرے وہ حال پوچھنے

جب جسم میں ہمارے حرارت نہیں رہی

ارشد ارشیؔ