ضمنی الیکشن پی پی 206 خانیوال

Election

Election

تحریر : فیصل جاوید

لاہور کے بعد 16 دسمبر کو ضلع خانیوال کے حلقہ پی پی 206 میں انتخابی دنگل سجنے جا رہا ہے سیاسی جماعتیں ووٹر کو اپنے اپنے حق میں کنونس کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اور کمپین آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے اس وقت الیکشن کا ماحول خوب گرم ہو چکا ہے پاکستان پیپلز پارٹی لاھور کے بعد اس حلقہ میں بھی اپنا امیدوار سید میر واثق کو میدان میں اتارا کر بنک ووٹ میں اضافہ کر کے جنوبی پنجاب میں بھی اپنا نعرہ جنوبی پنجاب کس کا بھٹو کا سچ کر نے کے لئے زور لگا رہی ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری کی ذاتی دلچسپی سے پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے پیپلزپارٹی قدم جما رہی ہے اور کسی حد تک وہ کامیاب نظر بھی آ رہی ہے سابق صدر براہ راست لاھور کی طرح اس حلقہ کی نگرانی خود کر رہے ہیں پیپلز پارٹی کی ٹیم سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے حیدر گیلانی، بیرسٹر حیدر زمان قریشی، خواجہ رضوان عالم، محمود حیات خان ٹوچی، سابق ایم پی اے شاہ رخ، ایم پی اے شازیہ عابد اور مقامی قیادت دن رات محنت کر کے اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھے ہوئے ہے اور پر امید ہے کہ دس سے بارہ ہزار ووٹ لے کر زرداری صاحب کو سرپرائز دیں گے دیکھتے ہیں پیپلزپارٹی لاھور کی طرح خانیوال میں بھی الیکشن کے بعد جشن منانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔

تحریک لبیک نے حاجی شیخ محمد اکمل کو ٹکٹ دیا ہے جن کا برادری ووٹ بھی ہے ان کی انتخابی مہم ان کے ووٹر اور لیڈر شپ پر جوش انداز میں اپنی کمپین چلا رہے ہیں اور خاص طور شہر میں اچھا خاصا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تحریک لبیک کا جلسہ ایک کامیاب جلسہ تھا قیادت کے آنے سے ٹی ایل پی کا ووٹر سپورٹر اپنے نعرے کو لے کر پر امید ہے کہ اس حلقہ کا تاج ان کے سر سجے گا یہ تو وقت بتائے گا کہ تاج کس کے سر سجتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ لبیک پی ٹی آئی کے زیادہ اور ن لیگ کے نسبت کم ووٹر کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور تقریباً 6سے 7 ہزار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اصل مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں ہے یہ سیٹ جنرل الیکشن میں ن لیگ نے جیتی تھی اور اس وقت کے امیدوار نشاط احمد خان ڈاہا مرحوم جو کہ اپنا ذاتی ووٹ بنک بھی رکھتے تھے جیتنے کے بعد سیاسی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے حکمران جماعت میں شامل ہو گئے اور پی ٹی آئی کے امیدوار راناسیلم ن لیگ میں شامل ہو گئے اس وقت دونوں جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں لیکن حکمران جماعت کو مہنگائی کا فیکٹر زبردست نقصان دے رہا ہے یہ بات درست ہے کہ محترمہ نورین نشاط کو ہمدردی کا ووٹ بھی ملے گا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ماسوائے ہراج گروپ کے ایم پی اے حامد یار ہراج جو کہ ن لیگ کی بجائے رانا سیلم کو ہرانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کے علاوہ کوئی اور رہنما اتنی سخت محنت نہیں کر رہا اور محترمہ نورین نشاط الیکشن میں پہلی دفعہ متعارف ہوئی ہیں اور اتنا تجربہ نہیں رکھتی صرف نشاط احمد خان کے گروپ قریبی دوستوں جن میں کچھ چھوڑ چکے ہیں۔

ان پر ٹرسٹ کر رہی ہیں جبکہ نشاط احمد خان الیکشن اپنے انداز اور مہارت سے لڑتے تھے اس وقت پی ٹی آئی کی ٹیم میں سردار حامد یار ہراج، ایم پی اے سردار احمد یار ہراج، معاون خصوصی وزیراعظم مجید خان ڈاھا، صوبائی وزیر میاں حسین جہانیاں، ڈاکٹر شفیق کمبوہ کے علاوہ مقامی قیادت شامل ہیں جو کہ جیت کے لیے پرامید ہیں میرے سروے کے مطابق پی ٹی آئی 25 سے 28 ہزار ووٹ لے سکتی ہے جبکہ ن لیگ اس وقت اپنی نشست کا دفاع اور جیتنے کے لئے تمام وسائل بروکار لا رہی ہے ن لیگ کے امیدوار رانا سیلم کی انتخابی مہم ڈاھا گروپ کے سربراہ حاجی عرفان احمد خان ڈاھا کر رہے ہیں جو کہ میاں نواز شریف کے پرانے اور وفادار ساتھی ہیں اس الیکشن کو جیتنے کے لئے بڑے متحرک ہیں۔

ان کی ٹیم میں ایم این اے افتخار نذیر، ایم این اے محمد خان ڈاھا، سابق ایم پی اے چودھری فضل الرحمان، صوبائی رھنما عطا تارڑ، پیر جمیل شاہ کے علاوہ سابق وفاقی وزیر رضا حیات ہراج، سابق صوبائی وزیر مختار حسین شاہ کے بیٹے حاجی بابا رانا سیلم کی جیت کے لیے کوششاں ہیں سب سے زیادہ رانا سیلم کی اپنی محنت بہت زیادہ ہے اور گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے ہیں میرے خیال اور سروے کے مطابق ن لیگ اس وقت سب سے آگے ہے اور 30 سے 35 ہزار ووٹ لے کر اپنی سیٹ کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن اس کا دارو مدار الیکشن والے دن ووٹر کو پولنگ پر لے جانا ہے اور ٹرن آوٹ کو زیادہ سے زیادہ کروانا ہو گا اور جو بھی امیدوار ووٹر نکال لے گا وہی اپنے سر پر تاج سجائے گا نوٹ یہ تحریر میں نے.اپنے تجربہ اور سروے کے مطابق لکھی ہے باقی غاہب کا علم اللہ جانتا ہے۔

Faisal Javed

Faisal Javed

تحریر : فیصل جاوید