دشمن نہ کرے

Lawyers Protest

Lawyers Protest

تحریر : روہیل اکبر

وکلاء نے لاہور میں دل کے ہسپتال پر حملہ کیا تو مجھے لتا منگیشکر کا گایا ہوا گانا یاد آگیا کہ دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے عمر بھر کا غم ہمیں انعام دیا ہے یہ گانا کہاں کہاں اور کس کس موقعہ پر یاد نہیں آیاجب ڈاکٹر مریضوں کو ٹرپا ٹرپا کر ماررہے ہوتے ہیں،جب پولیس والے کسی پر تشدد کررہے ہوتے ہیں اور بے گناہوں کو پولیس مقابلوں میں پار کررہے ہوتے ہیں جب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے ملک سے بھاگ رہے ہوتے ہیں کس کس ادارے اور کن کن ہستیوں کا ماتم نہ کیا جائے یہاں پر تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ بھی ہے کہ میڈیا اگر کسی کو اسکا اصل چہرہ دکھا دے تو وہ آپے سے ہی باہر ہوجاتا ہے۔

مختلف وکلاء تنظیموں نے کہا کہ میڈیا لاہور واقعہ پر یکطرفہ رپورٹنگ بند کرے ورنہ عدالتوں میں داخلہ بند کردینگے کیا عدالتیں وکلاء کی جاگیر ہیں جہاں پر وہ اپنے سوا کسی اور کو برداشت نہیں کرینگے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اندر اور باہرمیڈیا نے وہی دکھایا جو ان کالے کوٹ والوں نے کیا مریض کے منہ پر سے آکسیجن ماسک اتارنا،شیشوں کو توڑنا،مشینوں کو خراب کرنا اور پورے ہسپتال میں افراتفری کا ماحول پیدا کردینا اگر وکلاء گردی نہیں ہے تو پھر ملک کا ہر چور ڈاکو اور قاتل ایک معزز اور شریف شہری ہے جسکے سامنے ہر اس فرد کو اپنا آپ قربان کردینا چاہیے کیونکہ ایک امن پسند اور شریف شہری لڑ نہیں سکتا،شور نہیں ڈال سکتا،ملک میں شہریوں کا امن اور سکون برباد نہیں کرتا،ٹریفک قوانین کی پابندی کرتا ہے،قطار میں لگ کراپنی باری کا انتظار کرتا ہے اور پھر اپنی حق حلال کی کمائی میں سے ٹیکس بھی دیتا ہے جس سے پورے ملک کا نظام چلتا ہے اور سرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے مفت خوروں کے پیٹ پالتا ہے اور پھر ملک کے لیے اپنا تن من دھن وارنے کو تیار رہتا ہے۔

میڈیا نے اگر پتھراؤ کرتے ہوئے،آگ لگاتے ہوئے گندی زبان استعمال کرتے ہوئے،کالج کی بچیوں کی بس کو روک کر شیشے ٹوڑتے ہوئے ڈرائیور کو گھسیٹتے ہوئے،ڈاکٹروں کے ترش و تیز رویوں کے باوجودزندہ رہنے کی امید رکھنے والے مریض کے منہ سے آکسیجن ماسک اتارتے ہوئے،ہسپتال کے شیشے،کھڑکیاں اور دروازے توڑتے ہوئے،میڈیا ورکرز کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے اور حکومتی نمائندے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پر تشدد کرتے ہوئے ان کالے کوٹ والوں کے کالے کرتوت دکھادیے ہیں تو اس میں برا ماننے والی ایسی کون سی بات تھی آپ لوگ خود کالا کوٹ پہن کر پولیس کی گاڑی کو آگ لگا کر اسکے کالے دھوئے کے سائے میں سیلفیاں بنا رہے تھے اپنی ویڈیو بنوارہے تھے تو وہی ویڈیو اگر میڈیا نے چلا دی تو کونسا طوفان آگیاحوصلہ کرکے اب سامنا کریں کیونکہ اس ملک کے سبھی ادارے آپ کے نقش قدم پر ہی چل رہے ہیں مگر وہ ساتھ حوصلہ بھی رکھتے ہیں پولیس والے بے گناہوں کو مارتے ہیں آپ جیسوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور کھل کرکرتے ہیں ڈاکٹر بھی آپ سے دو قدم آگے ہیں مریض ٹرپ رہا ہو تو وہ اپنے کمرے میں چائے کے کپ پر گپیں لگا رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثرہاؤس جاب والے یا نئے نئے میڈیکل آفیسر بننے والے ہوتے ہیں ان سے اوپر والوں کی تو آپ بات ہی نہ پوچھیں اور نہ کریں یہ ہمارے معاشرے کی وہ مقدس گائیں ہیں جو اپنے پیشے کو کمائی کا زریعہ بنائے ہوئے ہیں ہسپتال میں پروفیسر ڈاکٹر تو ایسے ہیں جیسے ابھی ابھی دشمن ملک کو فتح کرکے آرہے ہیں جیسے وکلاء نے اپنے ہی ملک کو فتح کررکھا ہے یہ صرف پولیس اور ہسپتالوں کا نظام نہیں بلکہ ہمارے ملک کے ہر سرکاری ادارے میں بیٹھا ہوا فرد اپنے ہی ملک کو فتح کرنے میں مصروف ہے ہسپتالوں اور تھانوں میں جو لوگ مرتے ہیں کیا وہ کسی کے والدین،بہن،بھائی اور شتہ دار نہیں ہوتے مگر ہم پروٹوکول کے نام پردوسروں کی زندگیوں سے کھیلنا عین اپنا فرض سمجھتے ہیں اور تو اور ہم اپنے علاوہ کسی اور کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔

ہم میں یہ ساری تبدیلیاں یک دم نہیں آئی بلکہ اس زہر کو ہمارے وجود کا حصہ بنتے بنتے 70سال ہوگئے ان سالوں میں ایک نسل ختم ہو گئی دوسری ختم ہونے کے قریب ہے اوراب تیسری نسل کی رگوں میں پروٹوکول اور نفرت کی آگ رچ بس چکی ہے ہماری منزل تبدیل ہوچکی ہے ہم سے بعد آزادی حاصل کرنے والے ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں آج وہاں قانون اور عوام کی حکمرانی ہے مگر ہم آج آزاد ہوتے ہوئے بھی غلامی کی نچلی ترین سطح کی زندگی گذار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اچھا انسان اچھا نظر نہیں آتا ہمیں لوٹ مار کرنے والا،دوسروں کے حقوق غضب کرنے والا،بات بات پر جھوٹ بولنے والا اور اپنی بات منوانے کے لیے دوسروں پر تشدد کرنے والا ہی ہر طرف نظر آرہا ہے اور اب تو ہم اتنے شدت پسند ہوچکے ہیں حکومتی وزرا پر بھی ہاتھ اٹھانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے جیل روڈ پر جو کچھ ہوا وہ بہت برا ہوا مگر ایک صوبائی وزیر کے ساتھ جو ہوا وہ بہت برا ہوا اور جسکے نتائج بھی خوفناک نکلیں گے میں سمجھتا ہوں کے اب اس کھیل کا انجام قریب ہے جسکے لیے ہمیں ایک بڑی جنگ لڑنا ہوگی۔

اس نظام کے خلاف اور ایسے لوگوں کے خلاف جنہوں نے اس نظام کو پروان چڑھایامجھے امید ہے کہ جسکی کی لاٹھی اسکی بھینس کے موجودہ گلے سڑے نظام میں جسٹس باقر نجفی امید کی کرن اور بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہونگے اور وہ آنے والے وقت کے لیے ایک مثال قائم کردینگے کہ ایک آزاد ملک میں پڑھا لکھا طبقہ دوسروں سے کیسے پیش آتا ہے اور قانون سب کے لیے برابر ہوگا ایک عام اور معمولی چور کو بھی وہی سہولیات ملیں گی جوکروڑوں اور اربوں لوٹنے والوں کو میسر ہیں اگر اب بھی ایسا نہ ہوا تو پھر کوئی ادارہ کسی بھی طاقت والے سے محفوظ نہیں رہے گا کبھی شیشے ٹوٹیں گے تو کبھی آگ لگائی جائیگی اور کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر پورے نظام کوہی اپنوں کے ہاتھوں ہی آگ لگ جائے اور جب آگ لگتی ہے تو پھر وہ اپنے پرائے نہیں دیکھتی اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ کاش کہنے والے بھی نہیں ملیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر