یورپی یونین، چین کے مابین تاریخی سرمایہ کاری معاہدہ ہو گیا

EU-China Agreement

EU-China Agreement

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی یونین اور چین کے مابین ایک تاریخی اور وسیع تر سرمایہ کاری معاہدہ طے پا گیا ہے۔

یورپی یونین نے چین کے انسانی حقوق کے متنازعہ ریکارڈ کے باوجود بیجنگ حکومت کے ساتھ اربو ں یورو کی سرمایہ کاری کے ایک تاریخی معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔

مغربی دنیا کا الزام ہے کہ چین کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت خراب ہے لیکن یورپی یونین کے رہنماؤں نے بدھ تیس دسمبر کے روز اس خراب ریکارڈ کے باوجود بیجنگ حکومت کے ساتھ اربوں یورو کی سرمایہ کاری کے ایک وسیع تر معاہدے کی منظوری دے د ی۔ یونین کو امید ہے کہ اس معاہدے سے فریقین کے مابین منفعت بخش کاروبار کے دروازے کھل جائیں گے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور یورپی کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین سمیت یورپی یونین کی متعدد اعلیٰ شخصیات اور چینی صدر شی جن پنگ نے ایک مشترکہ ویڈیو کانفرنس میں اس معاہدے کی منظوری کا اعلان کیا۔

جرمنی کی سابق وزیر دفاع اور یورپی یونین کے کمیشن کی موجودہ صدر فان ڈئر لاین نے بعد میں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ”یورپی یونین دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ ہے۔ تجارت کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں لیکن ہم باہمی تعاون، یکسا ں مواقع اور اقدار سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

ایک تجارتی اصطلاح کے طور پر ‘یکساں مواقع‘ کی ترکیب ان ضابطوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو غلط مسابقت کو روکنے کے لیے وضع کیے گئے ہوتے ہیں۔

چین کی سرکاری خبر رسا ں ایجنسی شنہوا کے مطابق صدر شی جن پنگ نے کہا کہ یورپی یونین اور چین دونوں ہی سرمایہ کاروں کے لیے ایک بڑی مارکیٹ اور بہتر تجارتی ماحول فراہم کرے گی۔

صدر شی نے کہا کہ یہ معاہدہ کھلے پن سے متعلق چینی عزم اور اعتماد کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے عالمی معیشت کو کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والے نقصانات سے نکالنے میں، اقتصادی عالمگیریت اور آزاد تجارت کو فروغ دینے سمیت کئی حوالوں سے مدد ملے گی۔

اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے فریقین کو سات برس تک سخت محنت کرنا پڑی۔ برسلز میں یورپی یونین کے عہدیداروں کو خدشہ تھا کہ عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیجنگ کے حوالے سے سخت موقف ممکنہ طور پر اس معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو سکتا تھا۔

اس معاہدے کو قانونی شکل دینے کی خاطر یورپی یونین کے لیے آئندہ برس یورپی پارلیمان سے اس کی منظوری لینا لازمی ہو گا۔

یونین کو امید ہے کہ اس معاہدے سے فریقین کے مابین منفعت بخش کاروبار کے دروازے کھل جائیں گے۔

اس معاہدے کے پیچھے سوچ یہ ہے کہ اس سے یورپی اور چینی کمپنیوں کے لیے متعدد شعبوں میں تجارت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یورپی کمپنیا ں اب مینوفیکچرنگ، انجینئرنگ، بینکنگ، اکاؤنٹنگ، ریئل اسٹیٹ، ٹیلی کوم اور کاروباری مشاورت جیسے شعبوں میں چین میں زیادہ بہتر رسائی حاصل کر سکیں گی۔

یورپی کمیشن کے مذاکرات کار اس معاہدے میں یہ شق شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ یورپی سرمایہ کاری کو چین میں داخلی حریف سرمایہ کار اداروں کے مقابلے میں ‘کم تر‘ نہیں سمجھا جائے گا۔

یورپی یونین کے عہدیدار اس بات پر بھی متفق تھے کہ چین کو اپنے ہاں سرکاری مالی اعانتوں کے بارے میں بھی زیادہ شفافیت کی ضرورت ہے۔ یورپی منڈی میں بہتر رسائی کے بدلے میں چین اپنے ہاں مختلف شعبوں میں دی جانے والے سرکاری سبسڈی کی فہرست ہر سال شائع کرے گا۔

برطانیہ یکم جنوری سے یورپی یونین سے حتمی طور پر الگ ہو رہا ہے۔ اس لیے اسے یورپی یونین کے چین کے ساتھ کیے گئے اس یا کسی بھی دوسرے معاہدے سے اب کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

امریکا میں جو بائیڈن کی قیادت میں آئندہ اقتدار میں آنے والی نئی ملکی انتظامیہ چین کے ساتھ یورپی یونین کے مذاکرات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

نو منتخب امریکی صدر ان خبروں کے بعد کہ بعض چینی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تیاری میں ایغور اقلیتوں سے غلاموں کی طرح کام لے رہی ہیں، یورپی مارکیٹ میں چینی کمپنیو ں کے قدم جمانے کے معاملے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

چینی حکومت کا ترجمان سمجھے جانے والے اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے بدھ کے روز لکھا کہ بیجنگ حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی ادارہ محنت کی شرائط پر کاربند رہے گی۔

یورپی یونین کے ایک اہلکار نے اپنا شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر چین اپنے ہاں اس سرمایہ کاری معاہدے کے ضابطوں کو نافذ کرنے میں ناکام رہا، تو جواباﹰ اس کی یورپی منڈئی میں رسائی کم کر دی جائے گی۔