یورپین یونین نے پی آئی اے کو 3 جولائی تک آپریشن جاری رکھنے کی اجازت دے دی

PIA

PIA

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت پاکستان کی کاوشوں سے یورپین یونین نے پی آئی اے کو 3 جولائی تک آپریٹ کرنے کی اجازت دے دی۔

اس سے پہلے پائلٹوں کے جعلی لائسنس کی بنا پر یوروپین یونین اور برطانیہ نے پی آئی اے کی پروازوں کی یورپ اور برطانیہ آمد پر 6 ماہ کیلئے پابندی عائد کردی تھی۔

ترجمان پی آئی اے کے مطابق پی آئی اے کی یورپی ممالک میں پروازوں سے متعلق سیکرٹری خارجہ نے ہنگامی طور پر تمام یورپین ممالک کے سفیروں سے رابطہ کیا جس کے بعد پی آئی اے کو یکم تا تین جولائی برطانیہ اور یورپ اترنے اور اوور فلائینگ کی تا حکم ثانی اجازت دی گئی ہے۔

تاہم پی آئی اے کی اسلام آباد تا لندن اور واپسی کی پروازیں پی کے 785 اور 786 معمول کے مطابق آپریٹ کریں گی جب کہ دیگر پروازیں کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

پی آئی اے انتظامیہ، وزارت خارجہ اور پاکستان کے سفیر مسلسل یورپین حکام سے رابطے میں ہیں۔

اس قبل یورپین یونین ائیر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کی یورپین ممالک کیلئے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کیلئے معطل کیا گیا تھا۔

معطلی کا اطلاق یکم جولائی 2020 رات 12 بجے یو ٹی سی ٹائم کے مطابق شروع ہونا تھا جس کے تحت پی آئی اے کی یورپ کی تمام پروازیں عارضی طور پر منسوخ کی گئی تھی۔

دوسری جانب دوسری جانب اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی نے بھی اقوام متحدہ کے آپریشنز کیلئے پاکستان میں رجسٹرڈ طیارے چارٹر پر حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی ہے ۔

خیال رہے کہ گذشتہ دنوں وزارت ہوابازی نے 262 مشکوک پائلٹس کی فہرست جاری کی تھی، اس حوالے سے وفاقی وزیر غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ 148 مشکوک لائسنس کی لسٹ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز ( پی آئی اے) کو بھجوا دی گئی اور انہیں ہوابازی سے روک دیا گیا ہے،دیگر مشکوک لائسنس والے پائلٹس 100 سےزائد ہیں، ان کی تفصیلات بھی سول ایوی ایشن ویب سائٹ پر بھیج دی ہیں۔

غلام سرورخان کا کہنا تھاکہ پی آئی اے میں 28 پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ثابت ہوچکی ہیں، حالیہ دنوں میں 4 گھوسٹ پائلٹس فارغ کیے ہیں۔

گزشتہ روز ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی مشتبہ لائسنس کی اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد تمام پاکستانی پائلٹس گراؤنڈ کر دیے تھے۔

ویتنامی ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ ویتنام کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 27 پاکستانی پائلٹوں کو لائسنس دیا تھا، جن میں سے 12 کام کررہے تھے جبکہ 15 کے معاہدے ختم ہو چکے تھے یا وہ کورونا کے باعث کام نہیں کر رہے تھے۔