’دور رہو،‘ یورپ کا مہاجرین کو انتباہ

Refugees

Refugees

یونان (اصل میڈیا ڈیسک) کورونا کی وبا کے دوران یونانی اور ترک سرحدی فورسز نے متعدد ایسی نئی ڈیجیٹل رکاوٹوں کا تجربہ کیا، جن کی مدد سے وہ ترکی اور یونان کے راستے یورپی یونین کی علاقے میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے تارکین وطن کو روک سکیں۔

ایک ایسے وقت پر جب کورونا کی عالمی وبا میں بہتری کے آثار کے سبب مسافروں کا یورپ آمد و رفت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے اور زیادہ سے زیادہ افراد یورپ کے سفر کے لیے تیار بیٹھے ہیں، یورپی ممالک کی طرف سے تارکین وطن کو یورپ کا رخ کرنے سے باز رہنے کا زوردار پیغام دیا جا رہا ہے۔

یونان اور ترکی کی سرحدوں پر مہاجرین اور تارکین وطن کا بوجھ گزشتہ سالوں میں بڑھتا دکھائی دیا، جس کے سبب ان دونوں ممالک کی سرحدی پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں نے مہاجرین کا سیلاب روکنے کے لیے متعدد سخت اقدامات بھی کیے۔ تاہم کورونا کی عالمی وبا کے سبب مہاجرین کی یورپ کی طرف آمد کے سلسلے میں بھی کافی کمی آئی۔ کورونا کی وبا کے دوران یونانی اور ترک سرحدی فورسز نے متعدد ایسی نئی ڈیجیٹل رکاوٹوں کا تجربہ کیا، جن کی مدد سے وہ ترکی اور یونان کے راستے یورپی یونین کی علاقے میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے تارکین وطن کو روک سکیں۔

یونان کی تقریباﹰ 200 کلو میٹر طویل سرحد ترکی سے ملتی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران اس سرحدی گزرگاہ پر مہاجرین کی نسبتاﹰ کم ہلچل نظر آرہی تھی۔ اسی وقت کا استعمال کرتے ہوئے یونانی بارڈر پولیس نے ترک سرحد کی طرف جانے والی گزرگاہ پر ایک بکتر بند ٹرک پر ایک طویل رینج والا ‘صوتی آلہ‘ نصب کیا۔ یہ ‘صوتی آلہ‘ دیکھنے میں ایک چھوٹے ٹیلی وژن کے سائز کا ہے تاہم اس کی آواز کسی طیارے کے انجن جتنی ہوتی ہے۔ یہ اور ایسے دیگر آلات استعمال کیے جا رہے ہیں، یورپی یونین کی سرحدوں میں داخلے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو ایسا کرنے سے باز رکھنے کے لیے۔

ایک نئی فولادی دیوار، بالکل ویسی ہی جیسی حال ہی میں امریکا اور میکسیکو کی مشترکہ سرحد پر تعمیر کی گئی تھی، بھی کھڑی کر دی گئی ہے تاکہ دریائے ‘ایوروس کے کراسنگ پوائنٹس‘ کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جا سکے۔ اس کے نزدیک ہی نگرانی کی غرض سے اونچے اونچے ٹاورز پر نہایت حساس سینسرز اور نائٹ وژن والے کیمرے بھی نصب کیے جا رہے ہیں۔ یونانی حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کنٹرول ٹاورز کے ذریعے ڈیٹا جمع کر کے انٹیلیجنس ماہرین کو بھیجا جائے گا، جو ہر مشکوک نقل و حرکت کا باریکی سے جائزہ لیں گے۔

یورپی یونین نے اپنی سرحدوں کی حفاظت اور مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے تین بلین یورو کی رقم مختص کی ہے۔ 2015 ء اور 2016 ء کے دوران پناہ گزینوں کے یورپی سرحدوں کی طرف سیلاب کے بعد کی صورتحال سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اب سخت ترین سرحدی نگرانی پر کئی بلین یورو خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تب شام، عراق اور افغانستان کے تقریباﹰ دس لاکھ شہری مہاجرین کے طور پر یونان اور دیگر یورپی ممالک میں داخل ہوئے تھے۔ یونان اور ترکی کی سرحد پر سرچ لائٹوں، لانگ رینج ‘آڈیو ڈیوائسز‘ یا صوتی آلات کی مدد سے تارکین وطن کا جلد پتا چلانے اور دریاؤں میں گشت کر کے ایسے غیر ملکیوں کو دریا عبور کرنے سے روکنا ان اقدامات کے اصل اہداف ہیں۔

یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں کے محققین نے نجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر مستقبل کے لیے نگرانی اور ‘ویریفیکیشن ٹیکنالوجی‘ کا نظام تشکیل دیا ہے اور اب تک ایک درجن سے زائد منصوبوں کا یونانی سرحد پر تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔ یہ پانی، زمین، ہوا اور سمندر کے اندر ڈرون کی فوٹیج اور ہتھیلی کے برابر کے اسکینرز کی مدد سے انسانی ہاتھ کی رگوں کے انوکھے نمونے ریکارڈ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایک ایسا بائیو میٹرک شناخت کنندہ کیمرہ بھی سرحد کے نزدیک چھپنے والے افراد کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی کی ٹیسٹنگ ہنگری، لیٹویا اور یورپی یونین کی دیگر مشرقی سرحدی حدود میں کی جا چکی ہے۔