فیس بک، ٹوئٹر، گوگل نے پیرس حملوں میں مدد فراہم کی

Facebook, Twitter, Google

Facebook, Twitter, Google

ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ایک عورت کے باپ کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے جو گذشتہ نومبر میں پیرس میں ہونے والے حملوں میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

رینالڈو گونسالس گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کے خلاف انتہاپسندوں کو مدد فراہم کرنے کے الزام میں مقدمہ دائر کر رہے ہیں۔

انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کمپنیوں نے ’جان بوجھ کر‘ دولتِ اسلامیہ کو مدد فراہم کی کہ وہ لوگوں کو بھرتی کریں، رقم اکٹھی کریں اور ’انتہاپسندانہ پروپیگنڈا پھیلائیں۔‘

ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کی پالیسیاں انتہا پسندانہ مواد کے خلاف ہیں۔

گونسالیس کی بیٹی نوہومی ان 130 لوگوں میں شامل تھیں جو پیرس میں مارے گئے تھے۔

منگل کو کیلیفورنیا کی ایک عدالت میں دائر عرضی میں کہا گیا ہے: ’کئی برسوں سے دولتِ اسلامیہ جیسی دہشت تنظیمیں ان سماجی رابطوں کو استعمال کر کے اپنا انتہاپسندانہ پروپیگنڈا پھیلا رہی ہیں، رقوم اکٹھی کر رہی ہیں اور نئے لوگوں کو بھرتی کر رہی ہیں۔

’اس مادی امداد نے دولتِ اسلامیہ جیسی تنظیموں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اسے کئی دہشت گردانہ حملے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، جن میں 13 نومبر 2015 کو پیرس میں ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس میں نوہومی گونسالیس سمیت 125 افراد مارے گئے۔‘

گونسالیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹوئٹر، فیس بک اور گوگل کی یوٹیوب کے بغیر ’دولتِ اسلامیہ کی طوفانی نشو و نما ممکن نہیں تھی،‘ کیوں کہ اس طرح انھیں اپنا پیغام پہنچانے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچہ میسر نہ ہوتا۔

انھوں نے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ دولتِ اسلامیہ نے اپنا پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا، بالخصوص ٹوئٹر کو استعمال کیا ہے۔

خبررساں ادارے اے پی کے مطابق ٹوئٹر اور فیس بک نے کہا ہے کہ اس مقدمے کا کوئی جواز نہیں ہے کیوں کہ تینوں کمپنیوں کی پالیسیاں انتہاپسندانہ مواد کے خلاف ہیں۔

ٹوئٹر نے کہا: ’ہماری دنیا بھر میں واقع ٹیمیں فعال طریقے سے ضوابط کی خلاف ورزی کی تفتیش کرتی ہیں، مخالفانہ مواد کو شناخت کرتی ہیں اور جہاں مناسب ہو، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔‘

فیس بک نے کہا کہ اگر اسے ’کسی قسم کے فوری دہشت گردانہ خطرے کا پتہ چلے تو وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کر دیتی ہے۔‘
امریکی قانون کے تحت انٹرنیٹ کمپنیاں عام طور پر اپنے نیٹ ورک پر پوسٹ کیے گئے مواد کی ذمہ دار نہیں ہوتیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس مقدمے میں یہ استثنیٰ کس حد تک کام آ سکے گا۔