ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ

Parents and Children

Parents and Children

تحریر : ممتاز ملک. پیرس

ہم نے اکثر لوگوں کو اپنی اولادوں سے یا ایک دوسرے سے یہ کہتے سنا ہے کہ بھئی ہم تو اپنے والدین کے بہت فرمانبردار تھے، نیک تھے، مخلص تھے لیکن ہماری اولاد ایسی نہیں ہیں۔ جانے کیوں؟

جبکہ بڑے کہہ گئے ہیں کہ جو بوو گے وہ کاٹو گے۔ ببول کے پیڑ پر آم تو نہیں لگ سکتے۔ اسی طرح انسان اپنی جوانی میں جو اعمال انجام دیتا ہے اسے بڑھاپے میں انہیں کی جزا اور سزا اس کے ساتھ پیش آئے معاملات میں ملتی ہے۔ گویا جوانی عمل کے لیئے ہے، تو بڑھاپا سامنے سے ملنے والے ردعمل کا زمانہ ہوتا ہے۔

ہم جب ایسے لوگوں کے ماضی میں یا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اپنی ہی والدین سے کی ہوئی نافرمانیاں ،بہن بھائیوں سے کی ہوئی ذیادتیاں ، اور دوستوں سے کی ہوئی وعدہ خلافیاں ہی ہماری اولاد میں ان کے اخلاق و کردار کی صورت میں ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ پھر ہم خود کو لاکھ فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن سچ کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ ہم نے جو بیج جوانی میں بوئے تھے انہیں کا پھل جب پک کر تیار ہوجاتا ہے تو ہم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔

لیکن اس انکار سے ہم اپنی اولاد کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟

کیا یہ نہیں کہ ہم تو بڑے نیک اور باکردار تھے لیکن ہماری اولاد نافرمان اور بےکردار پیدا ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اولاد اپنے ذہن میں اس بات پر یقین کر لے کہ اچھا ہونے کا کیا فائدہ اس کے بدلے میں ہمیں سزا اور آزمائش ہی تو ملنی ہیں ۔ تو پھر چھوڑو نیک بننے کے چکر کو ۔ جو چاہے وہ کرو ۔ تو کیا اس پیغام سے ہم اپنےاور اپنی اولاد کے ایمان کو خطرے میں نہیں ڈال رہے ؟

جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم ایمانداری سے اپنا احتساب کرنے کی جرات کا مظاہرہ کریں ۔ اپنی غلطیوں اور خطاوں کو تسلیم کریں اور اپنی اولادوں کو سمجھائیں کہ آج ہم اگر اپنی اولادوں سے پریشان ہیں یا مالی تنگی کا اور بے سکونی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ ماضی میں ہماری اپنے والدین کو دی گئ پریشانیاں اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزیاں ہیں۔

اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ہم خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور جب بڑھاپے میں ہم میں گناہ کرنے کی، بدزبانی کرنے کی، دھوکے دینے کی ہمت نہیں ہوتی تو ہم سب ہی تسبیح پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور اللہ اللہ کر کے خود کو پارسا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرنے میں جت جاتے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جوانی ہی میں (جب ہم میں جسمانی اور ذہنی طاقت بھی موجود ہوتی ہیں ، اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں ، آسودگی بھی ہوتی ہے )اس بات کا پختہ یقین کر لیں کہ ہمارے آج کے اعمال ہی ہمارے بڑھاپے کے نتائج ہونگے۔ جبھی تو اللہ پاک نے جوانی کی توبہ اور جوانی کہ عبادات کو افضل ترین قرار دیا ہے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک. پیرس