محمدﷺ انعام ہیں

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

تحریر : شاہ بانو میر

التوبہ 128 سے 129
دیکھو
تم لوگوں کے پاس
ایک رسولﷺ آیا ہے
جو خود تم ہی میں سے ہے
تمہارا نقصان میں پڑنا
اِس پر شاق ہے
تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے
ایمان لانے والوں کے لیے
وہ شفیق و رحیم ہے
اب اگر یہ لوگ تم سے
منہ پھیرتے ہیں تو
اے نبیﷺ اِن سے کہہ دو
کہ
میرے لیے بس
اللہ ہے
کوئی معبود نہیں ہے
مگر وہ
اسی پر میں نے بھروسہ کیا
اور
وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا
سبحان اللہ
وقت نکال کر سکون اور خاموشی سے ایک بار نہیں
کئی بار پڑہیں
ایسی قیمتی باتیں وہ بھی میرے رب کی
چلتے پھرتے عام کتابوں کی طرح پڑہنے سے نہ سمجھ آتی ہیں
نہ
دل کو بدلتے ہیں
محبت دل کو تبدیل کرتی ہے
حب النبیﷺ کو دل میں بسا کر تو دیکھو
سوچ انداز زندگی سب تبدیل ہو جائے گا
اسی کو محبت کہتے ہیں
جس سے ہو ویسے ہی دکھائی دو
یعنی
عبادت میں وہی خضوع و خشوع
سوچ میں وہی طہارت
سب کے ساتھ معاملات میں یکساں رحمت
چال میں عاجزی
وہ رحمت اللعالمین جو اپنے
اقوال
اعمال
کی صورت ہمارے لئے چھوڑ گئے
ان سب کو اپنا کر ان جیسا بننا ہی تو اصل محبت تھی
ہم ان کے امتی کہنے سے نہیں
عمل سے لگتے
دعوت حق کیلئے انبیاء کی سرزمین کی بجائے
عرب کے نصیب جاگے
اللہ نے احمد محمدﷺ کو چنا
کون اللہ؟
وہ جو غائب ہے
مگر
ہر جگہہ موجود ہے
لیکن
اسکے بنائے ہوئے بندے اسی کے وجود سے منکر اور نا واقف تھے
اس رب کا شعور دینا آسان کام نہ تھا
ساتھی ایسے ملے جو ان سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے تھے
کیونکہ
اس بار کتاب دین نبی سب آخری تھے
لہٰذا حفاظت کیلئے مضبوط نظام طاقتور ہاتھوں نے ایمانی جزبے سے یوں کیا
کہ
پڑھ کر انسان صرف ان لوگوں کی عظمتوں کا شمار کرتے کرتے تھک جاتا ہے
ایسی نادیدہ ہستی کے اہل عرب واقف نہ تھے
اب اس رب کیلئے ان کو دعوت دے رہے تھے
وہ لوگ ہنسی میں بات اڑا دیتے
ان کے پاس تو کثرت تھے بتوں کی
انہیں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی
ایک نادیدہ ہستی میں
وہ پجاری بتوں کی تعداد کو شعبوں میں بانٹنے والے لوگ تھے
ایک رب
اتنی بڑی کائنات چلاتا ہے ماننے کو تیار نہیں تھے
مکہ اور اس کے گرد لاتعداد چھوٹے چھوٹے قبائل نے
من گھڑت قصے مشہور کر کے 360 بت خانہ کعبہ کے اندر رکھ چھوڑے تھے
نفسیاتی تسکین کیلئے انسان کو ہمیشہ کوئی چاہیے ہوتا ہے
جس سے مدد مانگ کر ذہنی روحانی تسکین حاصل کر سکے
یہی کام وہ ان بتوں سے بخوبی لیتے تھے
ہر شعبہ کا ایک الہٰ
وہ من گھڑت ناموں کے ساتھ
ہاتھوں سے بت تراش کے ان کی پرستش کرتے
جہاں مصیبت کوئی بلا طوفان پھنس جاتے تو
پہلے اپنے بتوں کو پکارتے
مسئلہ حل نہ ہوتا
تو محمدﷺ کے اللہ کو پکار کر مدد مانگتے
مصیبت ٹلنے کی صورت ایمان لانےکا عہد کرتے
دریا خشکی میں جب وہ مصیبت ٹل جاتی
تو وعدہ بھول جاتے
آسمانی کتابوں میں پہلے زبور کا ذکر سنتے ہیں
اللہ کی حمد پر مبنی صحیفہ تھا
جسے حضرت داؤد پڑہتے تو زمین و آسمان وجد میں آ جاتے
پھر
تٰورت پھر انجیل شریعت کی صورت اتاری گئیں
مگر
وقت کے ظالم سرکش فرعونوں نے دنیاوی فائدوں کیلئے
ان کتابوں کو تبدیل کرنے لگے
نبیوں سے جھگڑے کئے
اور
آسمانی کتب میں آیات اور مقامات تبدیل کر دیے
لیکن
ایک فیصلہ عظیم رب کا بھی تھا
اپنی کتاب اپنا نبی اپنا دین مکمل کر کے جنت کے باسیوں کو چننا تھا
اور
اس سے منکروں کو جہنم میں ڈالنا تھا
قرآن مجید کو آپﷺ پر نازل کیا
اور
قیامت تک اس میں سابقہ کتب کی طرح کوئی تحریف ممکن نہیں
یہ بھی لکھ دیا
جانیں گے صرف وہی جنہوں نے
جنہوں نے پیارے نبیﷺ کی زندگی کی پیروی کی
ان پر
اللہ کی عطا اس قرآن مجید تک رسائی کی صورت ہوتی ہے
ہدایت کیلئے
دن رات رو رو کر اپنے رب سے اس کا فہم مانگا
تب کسی خوش نصیب کو ہدایت ملی
آج 1400 سال کے بعد
جب
اللہ نے سیرت النبیﷺ احادیث بخاری
اور تجلیات نبوی الرحیق المختوم
پڑہنے کی سعادت عطا فرمائی
تو پتہ چلا
کہ
ہم نے دنیا کو بتایا ہی نہیں علم سے کہ آپﷺ کی شان کتنی بلند ہے
اگر سیرت النبیﷺ عملی طور پر پڑہائی جائے سنائی جائے
ہر گھر سے ہر لمحہ
درود کی صورت صدائیں زمین سے آسمان تک گونجیں گی
آسمان پر میرا پیارا رب اپنے محبوب پر سلام اور درود بھیجتا ہے
تو
زمین پر اس کے بندے اس کی مخلوق کیوں نہ پڑہیں
معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے
اکابرین جو مساجد چلاتے ہیں
پاکستانی خواتین کی اکثریت گاؤں سے تعلق رکھتی ہے
لہٰذا
دین کو بھی سادے سے سادہ رکھا گیا
کہ
ان کیلئے آسانی رہے
یہی وجہ ہوئی
کہ
پڑھ لکھ کر
آج ہمارے بچے ڈاکٹر انجنئیر وکیل سائنسدان یہاں بن گئے
لیکن گھر کا اتنا معصوم سادہ سنا سنایا دین
جب اتنے پڑہے لکھے لوگوں کے منہ سے بچگانہ باتیں سنتے ہیں
تو تکلیف ہوتی ہے
آپ کا دین حضرت آدم سے علم کی شمع جلتی ہوئی اقرا
نبی پاکﷺ تک پہنچی
ہم نے دین کو مشکل سمجھ کر
بنی اسرائیل کی طرح من پسند اور آسان چن لیا
نتیجہ
آج نہ ہم ادہر کےرہے نہ اُدہر کے
للہ
جہاں درود و سلام کی محفلوں کو سجائیں
نعتوں کے ساتھ سامنے موجود پڑہی لکھی پود کو
اس نسل کو نبی پاکﷺ کی زندگی قربانیوں
اور
اپنی مضبوط طاقتور اور قابل ستائش شریعت بھی آسان لفظوں میں سمجھائیں
دولت اور جہالت اور سادگی اور ہٹ دھرمی
میرے ملک کی یہ چار خوبیاں ہم وطن ساتھ لائے اور ہمیشہ ان کی حفاظت کی
ہم انفرادی طور پے جتنے بھی کامیاب ہو جائیں
زیرو ہیں
بطور امت
درخواست ہے تمام ان اصحاب سے
جو کسی بھی کار خیر میں کہیں بھی حصہ لے رہے ہیں
نعتوں کے ساتھ پیارے نبی کی سنتوں کو احادیث کو زندہ کیجئے
اگر
پردیس میں طاقتور اسلام دیکھنا چاہتے ہیں

محبت ہوتی کیا ہے؟
ایک ایک کر کے وہ حروف یاد آتے ہیں
جو شعراء کسی انسان کی محبت میں
عشق میں فراق کے قصے کہتے تھے
لفظ تو جسکی عطا تھے
اس ہستی کا حق تھا
الحمدللہ
قرآن کا شعور ملا
تو لفظوں کو استعمال کرنے کا قرینہ بھی ملنے لگا
اور
انہی حروف سے نبی کی ذات کی تفسیر سمجھ آنے لگی
محبت
عشق
جذب
فراق
تڑپ
دیوانگی
یہ سب تو صرف ان دو ہستیوں کیلئے زیب دیتا ہے
جن کیلئے راتوں کو جاگنا عبادت
دن میں سوچنا عبادت
آہیں بھرنا درجات
دیدار یار کیلئے رو رو کےاپنے ہی رب کی منت سماجت کرنا
کہ
روز محشر اپنے دیدار سے محروم نہ رکھنا

عطا کس کی تھی لکھ لکھ کر ضائع کن پر کرتے رہے
محبتوں کے اعلیٰ مقام کا شعور
بھی تو اعلیٰ رب سے ہی ملتا ہے
جب اپنے حبیب کی لگن دل میں بسا دے
تو پتہ چلتا ہے
کسک کیا ہے؟
مطلوب کی طلب کیا ہے
یہ تو اب دریچہ دل وا ہوئے ہیں
لفظ تفسیر بنتےکیسے ہیں
ذکرِ یار کہتے کسے ہیں
یاد سے فرصت کیوں نہیں ملتی
یہ تو آپﷺ کی سیرت مبارکہ کے مطالعے سے علم ہوا
حضرت آدمسے انسان کی تخلیق کی گئی
یعنی اللہ کی لوح محفوظ میں موجود پہلا کردار
اللہ نے اپنا نائب تخلیق کیا
انہیں شیطان نے گمراہ کیا
رب اپنے بندے سے ناراض ہوا
لیکن
آدم کو دعا کےالفاظ سکھا کر ان کی معافی قبول فرمائی
مگر
جنت سے زمین پر اتارا
ایسے بے آب و گیاں زمین پر نہیں
آسمان زمین پہاڑ دریا صحرا باغات چشمے دریا سمندر جنگلات
الغرض
دنیا کو سنوار کر سجا کر
متعین مدت کیلئے انسان کو زمین میں بھیجا
آدم سے شروع طویل سفر تب مکمل ہوا
جب آپﷺ دنیا میں تشریف لائے
دین قرآن نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ کا اعلان ہوا
قرآن پاک پیارے نبیﷺ پر نازل ہوا
سفر آدم کی غلطی سے آسمان سے زمین پر اتارنے کی بظاہر سزا سے شروع ہوا
اتنے لمبے سفر کے بعد اختتام ایسے پیارے نبیﷺ کی صورت نصیب ہوا تو
ابن آدم کیلئے جنت سے دنیا کا یہ سفر
آپﷺ کی ذات کی وجہ سے سزا سے
اعلی انعام میں بدل گئی

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر