اہل وفا اس رنج کو دھویا نہیں کرتے

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

پرویز مشرف ہماری تاریخ کا وہ کردار ہیں جو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا ،12-10 1999لے کر آج تک یہ نام ایک دن کے لیئے بھی میڈیا سے حذف نہیں ہوا۔اس تمام عرصے کے اخبارات اٹھا کے دیکھ لیں یا ٹی وی چینلوں کا کوئی ٹاک شو،کوئی نیوز، کوئی پروگرام دیکھ لیں ہر جگہ مشرف چھائے رہے ۔کسی نے محبت کی کسی نے نفرت،کسی نے مذاق اڑایا ،کسی نے عزت دی،کوئی ہمدرد بنا ،کوئی دشمن ،کسی نے حمایت کی تو کسی نے اہانت کی ،مگر سب کی دال روٹی اس ایک نام سے چلی۔حتٰی کہ جو آج حکمران بنے بیٹھے ہیں یہ بھی اسی نام کے صدقے میں ورنہ میاں صاحبان اور زرداری باہم دست و گریبان ہوتے ۔مشرف فوبیا نے ان سب کو جڑے رہنے پر مجبور رکھا ورنہ تو اس نام نہاد جمہوریت کا جنازہ بڑی دھوم سے اٹھتا۔

پاکستان سے محبت مشرف کا جرم ہے ۔اپنی ماں اور بچوں کی قسم کھانے والا شخص اس کرپٹ نگری میں شائد ایک بھی نہ ہو اور ہماری سیاست میں ایمانداری سے بڑا جرم کوئی نہیں جو جتنا لُوٹ سکتا ہے وہ اتنا معزز گنا جاتا ہے حیرت ہوتی ہے کہ ہم کس کی تقلید کر رہے ہیں۔قران و سنت کی ؟ یا ان مثالوں کی جو ہمارے اسلاف چھوڑ گئے ؟ یا اپنے ارد گرد موجود دنیا کی جو غیر مسلم ہیں یا مسلم کم از کم ہم سے بہت بہتر ہیں شرم آتی ہے اپنے حکمرانوں کے افعال دیکھ کر ۔۔۔۔۔اللہ نے اتنا مال دیا ہے تو اس کو بجائے عوام پہ خرچ کرنے کے اُلٹا عوام کی کھال اتارنے میں لگے ہیں ،یہ نہیں سوچتے کہ جانے کتنا وقت باقی ہے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بیوی نے ایک دن شکایت کی کہ عیدالفطر سر پر آ رہی ہے سب لوگ نئے کپڑے پہنیں گے ایک ہمارے بچے ہیں جو خلیفئہ وقت کے فرزند ہونے کے باوجود پھٹے پرانے کپڑوں میں ہونگے ۔امیرلمومنین نے بیتالمال کے خزانچی کو رقعہ لکھا ہمارا حق خلافت ایک مہینہ پیشگی ادا کر دیجئے۔ مہتمم بیت المال نے عرض کیا بادشاہ کا حکم ہے مجھے کوئی عذر نہیں ۔ لیکن امیرالمومنین کو کیونکر یہ یقین ہے کہ وہ ایک مہینہ تک زندہ رہ سکتے ہیں ؟ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو غریبوں کے مال کا حق کیوں پیشگی ہی اپنی گردن پر رکھتے ہیں ۔فرمایا خزانچی کا خیال بہت صحیح ہے۔
اللہ اللہ! کیا لوگ تھے زبانیں حق کہنے کے لیئے آزاد تھیں اور کان حق سننے کے لیئے کھلے تھے ۔خلوص کے ساتھ جسارت اور دلیری تھی اور فراخدلی کے ساتھ شنوائی۔

کیا اسمبلیوں میں بیٹھا کوئی ایک بھی شخص قسم اٹھا سکتا ہے کہ اس نے قوم کا پیسہ نہیں لوٹا؟مشرف نے خدا کو گواہ کر کے ججوں کے سامنے اپنی ماں اور بچوں کی قسم کھائی کہ ان پر پاکستان کا ایک پیسہ بھی حرام ہے انہوں نے اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں ملک کو جتنی ترقی دی وہ ساٹھ برسوں میں نہیں ہوئی انہوں نے غداری کی تشریح کی کہ ملک کے راز بیچنے والا ،ملک کی دولت لوٹنے والا،دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا غدار ہوتا ہے جبکہ انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ۔مشرف کا سوال تھا کیا اسمبلیوں میں صادق اور امین بیٹھے ہیں؟ جن پہ اسی اسی ارب لوٹنے کے الزام ہیں وہ بھی باعزت بری کیئے گئے ۔لیکن ایک ایسے شخص کو غدار کہا جاتا ہے جس نے آئی ایم ایف سے ملک کی جان چھڑائی ،عام آدمی کی زندگی کو بہتر کیا ،سڑکیں بنوائیں پل بنوائے زراعت کہ ترقی دی ،آرمی کا مورال بلند کیا ،پاکستان کے پاسپورٹ کی عزت کرائی ،اس کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہ ؟

Taliban

Taliban

ہم جانتے ہیں مشرف کو اس ملک سے وفا کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ مشرف نے اپنے لوگوں کو امریکہ کے حوالے کیا دوسری طرف امریکی صحافی خاتون الزام لگاتی ہے کہ مشرف نے اسامہ کو چھپا رکھا تھا ،مشرف طالبان کے حامی تھے۔اگر مشرف طالبان کے حامی تھے تو پھریہ کون سے طالبان ہیں جو مشرف کے خون کے پیاسے ہیں ؟

کہا جاتا ہے کہطالبان کا تصور یا سکیم برطانیہ کی مشہور زمانہ خفیہ ایجنسی M11 نے دی۔انگریزوں کو ہمارے بارے میں ہم سے زیادہ معلومات ہیں کیونکہ ان کے افسران جن علاقوں میں تعینات رہے۔ان علاقوں کے لوگوں ‘ سرزمین’ قبیلوں ‘ عادات و اطوار، ان کی طاقت اور نفسیات کے متعلق ریسرچ کرتے رہتے تھے ۔اس حقیقت کا اعتراف پاکستان کی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ستمبر 1996میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران کیا کہ اس منصوبے میں امریکہ ،برطانیہ ،اور سعودی عرب کی ایما بھی شامل تھی(طالبان اور بینظیر بھٹو کی سرپرستی صحفہ نمبر149)جب طالبان کا وجود ہی امریکہ ،برطانیہ اور سعودی عرب کا مرہون منت ہے تو اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان میں کشت و خون کا بازار کیوں گرم رکھتے ہیں ،کیوں انہوں نے ملک کو غیر مستحکم کیا کیوں وہ پاک آرمی کے جوانوں کے گلے کاٹتے ہیں اور کیوں آج پاکستان کے وزیراعظم سے افغان صدر کرزئی نے مطالبہ کیا کہ وہ آئی ایس آئی کو ختم کر دیں ۔ کیا کرزئی ایسا مطالبہ جنرل ضیاالحق یا جنرل مشرف سے کر سکتے تھے ؟ کبھی نہیں۔

کسی بھی ملک کی خفیہ ایجنسی اپنے ملک کی سلامتی کی زمہدار ہوتی ہے۔ اور سلامتی کے زمہ داروں کو ختم کرنے والے ملک سے وفادار نہیں ہو سکتے ۔جناب وزیراعظم نے اس وقت تو بات ٹال دی ۔لیکن اس کا جواب نہ دیا جو آئی ایس آئی چیف کو دینا پڑا ۔کیا ہمارے وزیر اعظم کو ان خطرات کا ادراک نہیں یا وہ اپنا بدلہ اتارنے میں اتنے مگن ہو چکے ہیں کہ ملک کی طرف بڑھتے ہوئے خون آشام سائے انکی نظروں سے اوجھل ہیں
عوام کو یہ سوچنا ہوگا کہ غدار کون ہوتا ہے۔ اور وطن کا وفادار کون ۔۔۔خدا کا شکر ہے اکرم شیخ صاحب کو بھی احساس ہوا کہ مشرف کو غدار کہنا درست نہیں ،آئین شکن کہہ سکتے ہیں ،لیکن اس ملک میں آئین شکن اتنے ہیں کہ ہر چوک پہ لٹکائے جائیں تب بھی پورے نہ پڑیں گے سو اس بات کو یہیں رہنے دیں تو اچھا ہے ورنہ خدا کی قسم جس طرح اینٹی ضیا اور اینٹی بھٹو ملک کا مستقبل چاٹ گئے اسی طرح اینٹی مشرف اور اینٹی نواز شریف ملک کو لے ڈوبیں گے ۔اور آنے والی کئی نسلوں تک یہ جنگ ختم نہ ہو گی۔

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر:مسز جمشید خاکوانی