فاٹا کا خیبرپختونخواہ میں انضمام کے بعد کے اثرات

Khyber Pakhtunkhwa

Khyber Pakhtunkhwa

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ

اس سے قبل کہ ہم فاٹا کے خیبر پختون خواہ میں انضمام کے بعد کے اثرات پر بات کریں ،پہلے فاٹا کے کی تاریخ پر کچھ عرض کرتے ہیں۔فاٹا(فیڈرل ایڈمنسٹرٹیڈ ٹرائیبل ایریا )پاکستان کے شمال مغرب میں پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ موجودہ( خیبرپختونخواہ) ہے۔ فاٹا افغانستان اوربرٹش ہند کے درمیان بفر زون تھا۔اسے انگریزوں نے انیسوی صدی میں افغانستان کے راستے سرخ انقلاب کو روکنے اور سرحدی قبائل کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا تھا۔ فاٹا میںاُس وقت سے انگریزوں کا بنایا ہوا کالا قانون ایف سی آر(فرنٹیئر کرائم ریگولیشن) لاگوتھا۔فاٹا کا یہ علاقہ سات( ٧) ایجنسیز، خیبر ایجنسی،باجوڑ ایجنسی،مہمند ایجنسی،اورکزئی ایجنسی،کرم ایجنسی، جنوبی اورشمالی وزیرستان ایجنسی اورچھ (٦)سرحدی علاقے( فرنٹیئر ریجن)، پشاور، کوہاٹ،بنوں،لکی مروت،ٹانک،ڈیرہ اسماعیل خان پر مشتمل ہے۔

اس وقت فاٹا کی آبادی تقریباً ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔فاٹا کا علاقہ ٦٠٠ کلومیٹر لمبا اور ١٣٠ کلومیٹر چورا ہے۔اس علاقے کے لوگ بہادر ہیں۔کابل کے سابق مغل حکمران اور سلطنت مغلیہ کے بانی ظہرالدین بابر نے اپنی کتاب ”تزک بابری” میں لکھا ہے، کہ اس راستے سے گزرکر ہندوستان میںداخل ہونے کے لیے مجھے انسانوں کی کھوپڑیوںکے پل بنانے پڑے تھے۔اس تاریخی حقیقت سے اس علاقے کے لوگوں کی بہادری کی داستان پوشیدہ ہے۔یہ بات ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ”خیبر مرگلہ کلب” نے ایک تقریب کا انتظام کیا۔ جس میں انگلش میں لکھی گئی ایک کتاب (خیبرپختونخواہ ۔اے پولیٹیکل ہسٹری۔ ١٩٠١ ء سے ١٩٥٥ئ) کی رونمائی تھی۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر فخرالاسلام ،ڈاریکٹر ،پاکستان اسٹڈیز سینٹر،یونیورسٹی آف پشاور نے اپنی تقریر میں تزک بابری کا حوالہ دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے مذید فرمایا کہ میں اس کتاب کے لیے مواد تلاش کرنے برطانیہ، انڈیا آف لائبیری گیا۔ تلاش کے دوران، معلوم کر کے میںحیرن ہوا کہ وہاں پر موجود، برٹش ہند پر لکھی گئی تمام کتب میں دو تہائی کتب خیبرپختونخواہ پر لکھی گئیں۔جس میں فاٹا کایہ اہم علاقہ بھی شامل ہے۔

جبکہ خبیرپختونخواہ کے علاقے کا رقبہ اور آبادی انگریزوں کے برصغیر کے مقبوضہ علاقوں سے رقبے اور آبادی سے بہت کم تھا۔ یعنی خیبرپختونخواہ کے نسبتاً کم علاقے پر زیادہ کتابیں لکھی گئیں۔ جس سے ثابت ہوتا کہ یہ علاقہ انگریزوں کے لیے وبال جان بنا رہا۔ فاٹا کے قبائل نے پاک فوج اور پونچھ کے ریٹائرڈ کشمیری فوجیوں کے ساتھ مل کر موجودہ آزاد کشمیر کا تین سو میل لمبا اور تیس میل چوڑا علاقہ بھارت سے لڑ کر آزاد کرایا تھا۔ مجائدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اقوام متحدہ گیا۔ کشمیر میں رائے شماری کے وعدے پر جنگ بندی کرائی۔ پھر اپنی سیاسی جد امجد چانکیہ کوٹلیہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے رائے شماری کرانے سے صاف مکر گیا۔ فاٹا اور پاٹاجس میں پاکستان اورافغانستان دونوں طرف پشتون قوم آباد ہے ۔جن کی آپس میں رشتہ داریں ہیں۔کہیں گائوں کی آدھی آبادی پاکستان کی طرف اور آدھی آبادی افغانستان کے طرف ہے۔

تاریخی طور پر یہ علاقہ بہادر جنگ جوئوں کے لیے مشہور ہے۔ 1893 ء میں افغانستا ن سے برطانیہ نے بین الاقوامی سرحد کا معاہدہ کیا جو سر مورٹیمرڈیورنڈ اور امیر عبدلرحمان کے درمیان ہوا۔ جواس کے نام ڈیورنڈ لین سے مشہور ہوا۔ مختلف وقتوں میں اس معاہدے کی تجدید ہوتی رہی۔ آخر میں 1930 ء میں بادشاہ نادر شاہ سے ہوئی ۔جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک تاریخی اور متفقہ بین الالقوامی سرحد ہے۔ قوم پرست افغان اس سرحد کو نہیں مانتے مگر اسلامی افغان یعنی طالبان کے دور میں اس سرحد کو مان لیا تھا اور یہ سرحد مکمل محفوط بھی ہو گئی تھی۔ پھرقوم پرست افغانستان ، بھارت اور امریکی کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے اس علاقے میں دہشت گردوں کی نرسیاں تیار ہوئیں۔ تقریباً ساری مسلح انتہا پسند تنظیمیں جن پر پاکستان نے پابندی لگائی ہوئی ہے اسی علاقے کی پیداوار ہیں۔ جس میں پاکستان دشمن ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) بھی شامل ہے۔

امریکا نے ڈکٹیٹر مشرف پر زور ڈال کر پاکستان میں قبائل پر فوجی آپریشن شروع کروائے۔ کئی دفعہ فوج اور ان جنگ جو طالبان کے میں جنگ بندی کے لیے معاہدے ہوئے مگر امریکا نے ان پر عمل درآمند نہیں کرنے دیا۔ عمران خان ہمیشہ ان فوجی آپریشن کے خلاف رہا ہے۔اسی لیے عمران خان کو دشمن طالبان خان کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اسی ڈیورنڈ لین کے اِس پار فاٹا کا علاقہ ہے۔ان ہی علاقوں کے غریب فاقہ مست قبائل اور مسلم افغانستان نے دنیا کی تین بڑی طاقتوں،برطانیہ جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔سویٹ یونین جسے دنیا سفید ریچھ کہتی تھی اور نیو ورلڈ آڈر والے امریکا کو شکست سے دوچار کیا ہوا ہے۔ شاہد شاعر اسلام علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال نے اسی لیے کہا تھا کہ:۔

فطرت کے مقاصد کی کرتاے نگہبانی
یا بندہ ِ صحرائی یا مرد کوہستانی۔

٢
جنگ کی تباہی کی وجہ سے اب ان علاقوں میں ریلیف دینے کی ضرورت تھی۔سابقہ حکومت نے فاٹا کو پاکستان کے شہریوں کے برابر آئینی حقوق دینے کے لیے فاٹا اصلاحات کمیٹی بنائی۔اس کمیٹی نے ڈیڑھ سال فاٹا کے عوام،جرگا،وکلائ، طلبہ،تاجروں،سیاستدانوں یعنی فاٹا کے تمام حلقوں مشورے کیے، تمام حلقوں نے ایف سی آر کا خاتمہ اور فاٹا کی خیبر پختونخواہ میں شمولیت کی بات کی۔ فوج اور ساری سیاسی پارٹیاں فاٹا کو خیبرپختوخواہ میں شامل کرنے کی حامی ہیں۔ حکومت ان اصلاحات کو منظور کے فاٹا کے لوگوں کو پاکستان کے شہریوں جیسے برابر کے حقوق دینے کا فیصلہ کیا۔ فاٹا کو صوبہ خیبرپختون خواہ پارلیمنٹ نے فاٹا ۔کے پی شمولیت بل ٢٨ مئی ٢٠١٨ء پاس کیا۔ا٣ مئی کو فاٹا اور پاٹا کو کے پی میں شامل کر لیا۔مرکز میں ٢٥ویں آئینی ترمینی بل کے ذریعے حکومت نے آئینی طریقہ اپناتے ہوئے فاٹا اور پاٹا کو حکومت میں شامل کر لیا۔پاکستان کی سینیٹ نے بھی ایک بل کے ذریعے اس کی منظوری دے دی۔گورنر کے پی کے تحت ایک ہائی پاور کمیٹی بنا دی گئی۔اس کمیٹی کے ذمے فاٹا میں جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا،ایڈمنسٹریشن کو پرانے قبائلی نظام سے ہٹا کر ماڈرن کرنا،معاشی اسکیموں تیار کرنا،کے پی کی طرف سے فاٹا کی ہر قسم کی مدد کرنا،تعلیمی قانونی اور سیکورٹی اداروں کومنظم کرنا،این ایف سی ایواڈ کی طرف سے تین پرسینٹ فنڈ مہیا کرنا اورصوبائی اوربلدیاتی انتخابات، یہ سارے کام خوش اسلوبی سے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

فوج بھی فاٹا میں ترقی یاتی کا زور شور سے کر رہی ہے۔ بھارت کی ایما پر قوم پرست افغانستان کی طرف سے آئے دن دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے مرکز نے افغان پاکستان باڈر پر غاردار دیورا اور سکورٹی چوکیاں بنائی گئی ہے، جو جلد مکمل ہو جائیں گی۔وزیر اعظم پاکستان کی حکومت نے فاٹا کو پاکستان کے شہریوں کے برابر لانے کی ذمہ داری قبول کی ہوئی ہے۔ اس سے فاٹا میں کافی حد تک بے چینی ختم ہو گئی ۔ انگریزوں نے فاٹا کے جنگ جو قبائل کو کنٹرول کرنے کے لیے١٩٠١ء میں ایف سی آر قانون بنایا تھا جسے عرف عام میں دنیا اس کو کالا قانون کہتی ہیں۔ جب پاکستان بنا تو فاٹا کے لوگوں کو امید بنی تھی کہ ان کو بھی پاکستان کے آئین کے مطا بق شہری حقوق ملیں گے۔ قائد نے بھی کہا تھا کہ قبائلیوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔مگر انگریز کا بنایا ہوا کالا قانون لاگو رہا۔فاٹا کو پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تھا۔خان اور ملک فاٹا کے عوام پر مظالم کرتے ہیں۔فاٹا میں رسم رواج کے تحت جرگہ کے تحت فیصلے ہوتے ہیںمگر اس میں بھی انصاف ملنا مشکل ہے۔چھوٹی سے غلطی سے لوگوں کے گھر جلا دیے جاتے ہیں۔

ایف سی آر کی وجہ سے فاٹا کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے رہے ہیں۔ فاٹا میں نہ کوئی یونیورسٹی ہے۔ نہ کوئی کالج ہے۔نہ پاکستان کے دوسرے لوگوں کی طرح برابر کے حقوق ہیں۔ نہ پختہ سڑکیں ہیں۔١٩٧٣ء کے آئین میں بھی فاٹا کے لیے کوئی بھی قانون نہیں بنایا گیا۔اس سے قبل ملک سسٹم کے تحت انتخابات ہوتے تھے۔ فاٹا کے ملک اور خان حضرات لاکھوں عوام کے نمائندے خود منتخب کرتے تھے۔ اب جب فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کر دیا گیا ہے۔پاکستان کے آئین کے مطابق حقوق دینے ا ور ایف سی آر کالے قانون کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس سے فاٹا کے عوام کا ٧٢سالہ پرانا مطالبہ منظور ہونے سے بہت خوش ہیں۔

فاٹا کے منتخب نمائندے کہتے ہیں۔ ہم سے سو بار پوچھا گیا۔ ہم نے سو بار بتایا کہ ہم خیبرپختوخواہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ فاٹا کے منتخب ممبروں نے پارلیمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کیا دھرنا بھی دیا تھا۔ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں نے ان کے تائید کی۔فغانستان کی قوم پرست حکومت کے حامی قوم پرست محمود خان اچکزئی نے اس کی مخالفت کی۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی فاٹا کی صوبہ خیبر پختون خواہ میں شمولیت پر مخالفت کی بلکہ روڑے اٹکائے۔ مگر شکر الحمد اللہ فاٹاکو آئینی طور پر پاکستان کے دوسرے شہریوں کے برابر حقوق مل گئے۔

صاحبو!فاٹا کاخیبرپختونخواہ میں انضمام کے بعد کے اثرات یہ ہیں کہ فاٹاکو پاکستان کے برابر کے حقوق دینے سے پاکستان مستحکم ہوگیا۔موجودہ حکومت نے فاٹا میں ترقیاتی کام شروع کیے ہوئے ہیں۔َموجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کوتو پہلے ہی سے دشمنوں نے طالبان خان مشہور کیا ہوا ہے۔اب فاٹا کے بہادر قبائل پہلے سے زیادہ پاکستاں کی سرحدوں کے محافظ بنیں گے۔ دشمن پاکستان کی طرف میلی نگاہ نہیں دیکھ سکے گا۔ فاٹا عمران خان حکومت میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ فوج اور حکومت ایک ہی پیج پر ہے۔ عمران خان نے کہا کہ اب ہم کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہونگے۔ سپہ سالار نے بھی کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی ختم کرنے میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ قربانیاں دیں ہیں۔ اب دنیا ڈو مور کرے ۔ ہم سے ڈو مور کا نہ کہے۔ہمارے ٧٥٠٠٠ شہری جن میں فوجی اور سولین شامل ہیں شہید ہو چکے ہیں۔ ١٥٠ ارب ڈالر سے زیادہ کا ہمارامعاشی نقصان ہو چکا ہے۔ اللہ مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مستحکم کرے اور اس کی حفاظت کرے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ