فیس ماسک

Face Mask

Face Mask

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

اکتوبر کا آخری عشرہ خاتمے کی طرف بڑھ رہا تھا آخر کار طویل گرمی حبس سورج دیوتا کی قہر سامانیاں دم توڑ چکی تھیں ۔موسم سرما کی آمد آمد ٹھنڈے خشک ہوا کے تازہ جھونکے گرمی کے مارے انسانوں کو فرحت بخش احساس بخش رہے تھے ۔میں کرونا لاک ڈائون گرمی کی حدت حبس کی وجہ سے کئی مہینوں کے بعد قریبی وسیع و عریض سر سبز و شاداب پارک میں لمبی واک کے لیے آیا ہوا تھا ‘سر سبز و شاداب مخملی سبزہ زاروں رنگ برنگے پھولوں جن میں کثرت گلاب کے سرخ پھولوں کی کیاریوں کے درمیان مٹی کے تقریبا ً دو کلومیٹر واکنگ ٹریک پر یہ میرا دوسرا چکر تھا میں تین سے چار چکروں کے موڈ میں تھا پہلے چکر کے بعد گردش خون کی تیزی کی وجہ سے جسم گرم ہو چکا تھا۔

ہلکے پسینے اور جسم کے گرم ہونے کی وجہ سے ہوا کے ٹھنڈے خشک خوشگوار تازہ آکسیجن سے بھرپور جھونکے جسم کو کیف آور فرحت انگیز احساس سے دوچار کر رہے تھے تیز چلنے کی وجہ سے نظام تنفس بھر پور کام کر رہا تھا میں اُس کی ضرورت پو ری کر نے کے لیے وقفے وقفے سے طویل بڑے بڑے گہرے سانس لے کر پھیپھڑوں کی ضرورت پوری کر نے کی کامیاب کوششوں میں مصروف تھا ساون بھادوں کی طویل بارشوں کے بعد چاروں طرف ہر یالی ہی ہریالی کے ڈیرے تھے گرمی کے خاتمے کے بعد درخت اور پھولوں کے پودے تروتازہ ہو کر دلکشی رعنائی کا سحر انگیز ماحول پیدا کر رہے تھے ٹریک پر بہت سارے آشنا چہروں سے مسکراہٹوں کا تبادلہ کر تے ہو ئے میں تیزی سے ٹریک پر بڑھتا چلا جارہا تھا میرے ہونٹوں سے اسماء الحسنی کے متبر ک نام پھسل رہے تھے سر سبزو شاداب قطعات اور رنگ برنگے پھولوں کی کیاریوں کے درمیان واک کا اپنا ہی لطف اور مزا ہے چاروں طرف ہوائوں میں مختلف درختوں پھولوں کی مہک رچی ہوئی تھی کہیں پر گلاب کی مہک آلودہوا کے جھونکے تو کہیں پر گیندے اور باقی پھولوں کے مہک آلود ہوا کے تازہ ٹھنڈے جھونکے قلب و روح خاص سر شاری سرور آفریں کیفیت کے باطن کے نہاں خانے بھی خاص کیفیت سے دوچارتھے قدرتی فطری دل آویز مناظر کے ساتھ اللہ کے ذکر میں مصروف میں واکنگ ٹریک پر چل رہا تھا میں جب بھی واک پر آتا ہوں تو اگر کوئی شناسا چہرہ مل بھی جائے تو اُس کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتا ہوں تاکہ اپنا واک کا ٹارگٹ حاصل کر لوں اگر آپ واک شروع کر دیں اور درمیان میں رک کر دوبارہ شروع کریں تو وہ پہلے والا ردھم نہیں بنتا اِس لیے میں دانستہ واقف دوستوں کو صرف مسکراہٹ کا تبادلہ کر کے آگے بڑھ جاتا ہوں۔

اِس دوران اگر کوئی زبردستی مخل ہو جائے تو اُس کو درخواست کر کے کہ ابھی نہیں آگے بڑھ جاتا ہوں زیادہ تر لوگ تعاون کر تے ہیں زیادہ مخل نہیں ہو تے لیکن بعض اوقات کو ئی زیادہ ہی پریشان شخص اخلاقیات کے ضابطوں کو پامال کر تا ہوا زبردستی راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے یا زبردستی واک میں ساتھ چلنا شروع ہو جاتا ہے آج بھی ایسا ہی مہربان دو تین دفعہ مسکراہٹوں کے تبادلے سلا م دعا کے بعد بضد تھا کہ میں اُس کی بات تفصیل سے سنوں تو میں نے ہار مان کر اُسے کہا آپ اِس جگہ پر آرام کریں میں چکر مکمل کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہو تا ہوں میرے تسلی دلانے پر وہ بولا آپ چلتے رہیں میںآپ کو تنگ نہیں کروں گا آپ کے پیچھے پیچھے چلتا رہوں گا جب آپ واک مکمل کر لیں گیں تو ہم بیٹھ کر بات کر لیں گے ساتھ ہی وہ بار بار اصرار کر رہا تھا کہ آپ نے آج میری بات تفصیل سے سننی ہے تو میں نے وعدہ کیا ضرور سنوں گا اب میں نے پھر واک کا سلسلہ دراز کیا لیکن میر ی بے نیازی کا شیل ٹوٹ چکا تھا کہ پہلے میں اپنی مستی بے نیازی میں قدرت کے نظاروں اور ذکر اذکار کے ساتھ واک کو انجوائے کر رہا تھا لیکن جب کوئی اپنی پریشانی کی وجہ سے مسلسل آپ کا پیچھا کر رہا ہو تو ارتکاز نہ ہو نے کی وجہ سے آپ انجوائے نہیں کر سکتے اِس لیے جیسے ہی خالی بینچ نظر آیا میں اُس کی طرف بڑھا اور تقاقب میں آنے والے شکستی حال کو بھی ادھر آنے کا اشارہ کیا تو تیزی سے میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔

یہ جوان لڑکا تین چار دفعہ اپنے کسی دوست کے ہمراہ میرے پاس پہلے بھی آچکا تھا کسی بیکری میں کام کر تا تھا ساتھ میں گریجوایشن کی تیاری بھی کر رہا تھا جوانی میں ہی محبت کی شادی کر کے اب تک تین بچوں کا باپ بن چکا تھا محبت کی شادی میں دونوں خاندان راضی نہیں تھے اِس لیے والدین اور سسرال دونوں خاندانوں نے قطع تعلقی کر لی اب یہ تھا اور اِس کے مسائل بیوی محلے میںبچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی یہ بیکری میں مزدوری کر تا تھا کر ائے کا مکان اور مہنگائی کا منہ زور سیلاب جب بھی آتا غربت مہنگائی بجلی گیس کے بلوں کا رونا رونا ساتھ میں یہ دعا کراتا کہ اِس کے والدین یا سسرال والے ناراضگی بند کر کے اب صلح کر لیں تاکہ یہ گھر جاکر نارمل زندگی گزار سکے میں نے اُس کی طرف گہری نظروں سے دیکھا اور پوچھا بیٹا تمہار ی والدین سے صلح ہو گئی تو وہ بولا نہیں سر بلکہ اب تو بیکری والوں نے بھی نوکری سے نکال دیا اب تو خود کشی والے حالات بن گئے ہیں زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا ہے بچوں کو ایک وقت کا کھانا دیتے ہی خود بھوکے رہ کر گزارا ہو رہا ہے۔

اکثر داتا صاحب جاکر کھانا کھاتا ہوں اور گھروالوں کے لیے بھی لے آتا ہوں سر خدا کے لیے میری اِس مشکل وقت میں مدد کریں میرے والدین بہت پیسے والے ہیں آپ دعا کریں وہ مُجھ سے صلح کر لیں میں نے کئی واسطوں سے اُن سے رابطہ کیا ہے لیکن اُن کی ایک ہی شرط ہے کہ بیوی کو طلاق دے کر آجائو تو ہم تمہارے سارے اخراجات برداشت کریں گے زندگی کی ساری سہولتیں تم کو دیں گے سر اگر میں بیوی کو چھوڑتا ہوں تو اپنے گھر جا توسکتی نہیں طوائف کوٹھے پر جائے گی یا خود کشی کر لے گی سر زندگی بہت مشکل ہے پھر وہ دیر تک بیچارہ اپنی مالی تنگیوں کا درد ناک انداز میں بیان کر تا رہا مجھے بھی دکھی کر تا رہا پھر میں نے اُس سے وعدہ کیا کہ میں تمہاری نوکری کا اور گھر کے راشن کا کل ہی بندو بست کر تا ہو تم پریشان نہ ہو میری بات سن کر اُسے کچھ حوصلہ ہوا اب میں واپس گھر کی طرف بڑھنے لگا تو اُس نے ایسی حرکت کی کہ میری جان ہی نکل گئی مجھے چیر کر رکھ دیا۔

میں نے پارک سے نکلنے کے لیے چہرے پر لگا فیس ماسک اتار کر پھینک دیا تو اُس نے بڑھ کر اُس کو اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا تو میں دہل گیا اور پوچھا یہ استعمال شدہ ہے تم کیوں اِس کو اٹھا رہے ہو تو ہو بولا سر آپ کو تو کرونا نہیں ہے ابھی میں نے سرکاری ہسپتال دوست کو پوچھنے جانا ہے جو وہاں داخل ہے تو ہسپتال میں داخلے کے لیے ماسک پہننا ضروری ہے سر میرے پاس پیسے نہیں کہ نیا ماسک خرید سکوں اِس لیے آپ کا اٹھا لیا تاکہ ہسپتال میں داخل ہو سکوں سر میں پیدل ہسپتال تک جائوں گا اُس کی حالت زار دیکھ کر میرا کلیجہ پھٹ گیا کہ ریاست مدینہ کی دعوے دار حکومت اربوں کھربوں مختلف اشتہاری کاموں پر لگاتی ہے کیا ہسپتال کے باہر مفت فیس ماسک کا انتظام نہیں کر سکتی کہ ایسے غریب لوگوں کو استعمال شدہ ماسک استعمال نہ کریں لیکن یہ تو باتوں تقریروں دعوئوں کے حکمران ہیں اللہ اِن کو عقل دے۔ آمین۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org