بانیِ جماعت اسلامی مولانا سید ابوا لاعلیٰ مودودی

 Sayyid Abul Ala Al Mawdodi

Sayyid Abul Ala Al Mawdodi

تحریر : میر افسر امان

مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی ١٩٠٣ء میںریاست حیدر آباد کے شہر اورنگ آباد میں مولانا احمد حسن کے گھر پیدا ہوئے، جو پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے۔ اس خاندان کا تعلق چشتیہ سلسلہ سے ہے، جو خواجہ قطب الدین موددد چشتی سے چلتا ہے۔ مولانا مودودی کو ان کے والد نے نو سال کی عمر تک گھر میں ہی تعلیم دلائی۔ مولانا مودودی کے والد کی خواہش تھی کہ وہ دینی تعلیم سے آراستہ ہو کر مولوی بنے۔ اس لیے مولانا مودودی کے والد نے مختلف اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کیا۔مولانا مودودی نے عربی،فارسی،حدیث اور اسلامی قانون میں تعلیم حاصل کی۔گیارا سال کی عمر میں آٹھویں کلاس میں مدرسہ فرقانیہ شرقیہ اورنگ آباد جماعت رشدیہ میں داخل کرائے گئے۔یہ مدرسہ علامہ شبلی نعمانی نے قائم کیا تھا۔ اس کے بعد مولانا مودودی کو دارالعلوم حیدر آباد میں داخل کیا گیا۔ مولانا موددی نے درس نظامی کی اعزازی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود اپنے آپ کو عالم کہنا پسند نہیں کیا۔

مولانا مودودی نے اس زمانے میں ہی انگلش اور جرمن زبان پر عبور حاصل کیا۔مولانا
مودودی نے مغربی دانشورں کی ساری ریسرچ کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ان کی تہذیب سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ ان پر تنقید کر کے باطل ثابت کیا۔ اسلام کوضابطہ حیات ثابت کیا۔ مولانا مودودی نے قرآن کو ترقی کی شاہ کلید قرار دیا۔ ١٧ سال کی عمر ،١٩١٨ء میں صحافت میں قدم رکھتے ہوئے بجنور کے مشہور ہفتہ واراخبار تاج آف جبل پور میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔١٩٢١ء میں ڈیلی مسلم کے ایڈیٹر رہے۔ ١٩٢٤ء سے ١٩٢٧ء تک الجمعیت کے ایڈیٹر رہے۔١٩٢٧ء میں مشہور زمانہ کتاب” الجہاد فی الاسلام” لکھی۔ اس کتاب کو شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال نے بہت پسند کیا۔ ١٩٢٨ء میں دہلی سے واپس حیدر آباد تشریف لے گئے۔ دنیا میں مسلمانوں کی پستی، ہندوئوں کا تعصب ، مسلمانوں کی گزشتہ شاندار تاریخ اور مغرب کے عروج کو دیکھتے ہوئے دل میں قومی حکومتوں کے بجائے، مدینہ کی اسلامی فلاحی جہادی ریاست طرز کی حکومت الہٰیا قائم کرنے کا خیال آیا۔ اس کے لیے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اپنے رسالے ترجمان القرآن کے ذریعے ١٩٢٣ء سے ١٩٤١ء تک دعوت دیتے رہے ۔

رسالہ ترجمان القرآن کا علامہ اقبالمطالعہ کیا کرتے تھے۔ غیر مسلموں نے تو کان نہیں دھرا ۔ البتہ برعظیم کے کچھ افراد اس کام کا بیڑا اُٹھانے کے لے تیار ہو گئے۔١٩٤١ء میں لاہور میں ٧٥ افراد اور ٧٥ روپے اور کچھ آنے کی مالیت کی بنیاد پر جماعت اسلامی قائم کی۔ ١٩٤٢ء میں مشہور معروف تفسیر قرآن، تفہیم القرآن لکھنے شروع کی جو١٩٧٢ء میں ٦ جلدوں میں مکمل ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق تفہیم القرآن دنیا میں سب سے زیادہ شائع ہونے والے اور پڑھی جانے والی تفسیر ہے۔ مولانا مودودی نے اسلام کے ہر پہلو کو قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے ، عصری تقاضوں کے مطابق واضع کرنے کے سیکڑوں کتابیں تصنیف کیں۔ مولانا مودودی کی ان کتابوںں کے دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ مولانا مودودی لاہور اپنی رہائش گاہ اچھراکے لان میں ملاقاتیوں کے لیے بعد نماز عصر مجلس منعقد کیاکرتے تھے۔اس میں سوال جواب کا سیشن ہوا کرتا تھا۔ راقم بھی ایک دفعہ اس عصر نشست میں شریک ہوا۔ مولانا مودودی کے برابر کھڑے ہو کر نماز عصر ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ سوال جواب کے دوران مولانامودودی سے کہا کہ میں نے کیا کہ آپ کی کتاب” خلافت ملوکیت” کا مطالعہ کیا ہے۔خلاف ملوکیت کتاب کے توڑ میں ایک شیعہ نے” امامت و ملوکیت” تصنیف کی ہے۔ میں نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ اس کتاب میں روایتی اوربے تکی قسم کی تنقید کی گئی ہے۔مولانا مودودی سن کرہنس دیے۔

مولانا مودودی اپنی خود نوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں”خاندان مودودیہ کی جس شاخ سے میرا تعلق ہے وہ نو یں صدی ہجری کے اواخرمیں ہندوستان آیا تھا۔اس شاخ کے پہلے بزرگ جنہوں نے ہندوستان میں مستقل سکونت اختیار کی وہ ابو ا لاعلیٰ مودودی تھے”مولانا مودودی کے اسلاف افغانستان کے علاقہ ہرات کے مقام چشت سے پہلے بلوچستان منتقل ہوئے تھے۔ جہاں کئی پشتوں تک مقیم رہے۔ پھرمولانا مودودی کے خاندان کے پہلے بزرگ شاہ ابو ا لاعلی جعفر ہندوستان تشریف لائے۔ ان کے نام پر مولانا مودودی کا نام ابوا لاعلیٰ رکھا گیا۔تاریخی طور پر ہجرت اور جہاد اس خاندان کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔ سکندر لودھی نے ٢ رمضان ٩١٢ ھ جس فوج کے ساتھ راجپوتوں کے مضبوط قلعہ تھنکر پر چڑھائی کی تھی اس فوج کے لشکر کے ہمراہ شاہ ابو الاعلیٰ جعفر اپنے مریدان با صفا کے ساتھ شریک تھے۔

اس لشکر نے راجپوتوں کے مضبوط قلعہ تھنکر کو فتح کیا تھا۔شاہ ابوالاعلیٰ جعفر کے تیر سے قلعہ کی دیوار سے جنگ کا معائنہ والا راجپوت فوج کا سربراہ ہلاک ہوا تھا۔ مولانا مودودی نے بھی اپنے خاندان کی روایت قائم رکھتے ہوئے علامہ شیخ محمد اقبال کی تحریک پر حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے ١٩٣٧ء میںپنجاب کے علاقہ پٹھان کوٹ کے قریب جمال پور میں اسلام کی خدمت کے لیے منتقل ہوئے تھے۔ جمال پور میںخطہ اراضی، ایک اسلام کے ایک شیدائی چوہدری نیاز علی نے علامہ اقبال کے مشورے سے فقہ اسلام کی جدید تدوین کے لیے وقف کیا تھا۔ مولانا مودودی ١٩٣٧ء سے ١٩٤٧ء تک وہاں سے

٢
اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے جدو جہد کرتے رہے۔ جمال پور میں نو مسلم علامہ محمد اسد جس نے ”روڈ تو مکہ” کتاب تصنیف کی بھی قیام پذیر تھے۔ علامہ اسد علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ساتھی تھے۔ مولانا مودودی اور علامہ اسد ١٩٤٧ ء میں جمال پور سے لاہور منتقل ہوئے۔ تحریک پاکستان کے دوران ہندوئوں نے قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی مخالفت میں، قومیں اُوطان، یعنی و طن سے بنتیں ہیں کا بیانیہ عام کیا تھا۔ہنددئوں کے مددگار دیو بند کے کانگریسی علماء تھے۔ کانگریسی علماء نے قائد اعظم کی دو قومی نظریہ پر جاری تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔اسی لیے مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر علماء دیو بند جمعیت علمائے ہند سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ہندوئوں کے بیانیہ ، قومیں وطن سے بنتی ہیں کہ حق میں ویو بند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی نے ایک عدد کتاب ” اسلام اور متحدہ قومیت”بھی تصنیف کی تھی۔ اس کے مقابلے اور تحریک پاکستان کی حمایت میں مولانا مودودی نے اپنے رسالے ترجمان القرآن میں دو قومی نظری کے حق میں کئی مضامین لکھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے ان مضامین کو پورے برعظیم کے اندر پھیلایاتھا۔ ان سے تحریک پاکستان کو کامیابی میں مدد ملی تھی۔ یہ مضامین کتابی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔قومیت کی تشریع علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کی تھی:۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومے رسولۖ عاشمی

پاکستان بننے کے فوراً بعد مولانا مودودی کو قائد اعظم نے دعوت دی کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قائم کرنے کے عملی طریقے حکومت اور عوام کوبتائیں۔مولانا مودودی نے ریڈیا پاکستان سے کئی دن تقریریں نشر کر کے اسلامی نظام حکومت کے قیام کے طریقے کی تشریع تھی ۔یہ تقاریر اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں اور کتابی شکل میںموجود ہیں۔ جو لوگ مولانا کو مودودی پر ناجائز بہتان لگا کر ان کو قائد اعظم کا مخالف کہتے ہیں وہ اس بات کو بھی نوٹ کر لیں۔ مولانا مودودی جماعت اسلامی کی تشکیل سے پہلے مسلمانان برصغیر کے سامنے ایک عرصہ تک اس کی افادیت اپنے رسالے ترجمان القرآن میں بیان کرتے رہے۔ ان کے نزدیک جماعت اسلامی ،اسلام کے کسی جزوی کام کے لیے نہیں، بلکہ پورے کے پورے اسلام کے نفاذ کے لیے بنائی گئی ہے۔ دنیا میں رائج الوقت سارے نظاموں کو تبدیل کر کے حکومت الہٰیا، اسلامی نظامی، نظام مصطفےٰ، نام کوئی بھی ہو، کو قائم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اسی پالیسی پر جماعت اسلامی اب تک قائم ہے اور ان شاء اللہ جب تک اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم نہیں ہوتا اس کی جدو جہد جاری رہے گی۔ جماعت اسلامی نے انبیا کی سنت پر قائم رہتے ہوئے عصری تقاضے کے مطابق پر امن جمہوری جدو جہد کر کے اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو قائم کرنے کی جو پالیسی شروع میں میں منتخب کی تھی اس پر ہی کام کر کے تبدیلی لانا چاہتی ہے۔

چاہے اس کے لیے کتنی ہی مدت درکار ہو۔اس عصری طریقہ یعنی بالغ رائے دہی کے ذریعے انتخابات میں شریک اور کامیاب ہو کر جمہوری طریقہ سے اسلامی نظام قائم کر نے کی جماعت اسلامی کے مؤقف سے اختلاف کر کے کچھ بنیادی ارکان جماعت اسلامی سے علیحدہ ہو گئے۔ مگر مولانا مودودی نے ”تحریک اسلامی کے آیندہ لائحہ عمل” کتاب میںجماعت اسلامی کی پالیسی واضع کر دی جو اب بھی کتاب کی شکل میں موجود ہے۔اس میں مولاناموددی نے واضع کیا کہ جماعت اسلامی انڈرگرونڈرہ کر کوئی کام نہیں کرے گی۔مروجہ جمہوری انتخابات کے لے ذریعے نظام حکومت کو تبدیل کرے گی۔اس کے لیے جماعت اسلامی نے شروع دن سے چار نکاتی پروگرام طے گیا۔جس کے تحت تطہیر افکار، تعمیر افکار، صالح افراد کی تلاش اور ان کی تربیت، اصلاح معاشرہ کی کوشش، آخر میں نظام حکومت کی تبدیلی۔ اس پروگرام کے تحت جماعت اسلامی ترقی کے منازل طے کر رہی ہے۔ جو تجزیہ کار جماعت اسلامی کے کام کو اس کے واضع کردہ پروگرام کے صرف انتخابی جز کو سامنے رکھ کر اس کو انتخاب میں کامیابی یا ناکامی پر پر کھنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید وہ ادھورا تجزیہ کرتے ہیں۔جماعت اسلامی صرف مروجہ انتخابی جماعت نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی جماعت ہے جوبتدریج اپنی منز ل کی طرف گامزن ہے۔مولانامودودی عالم دین سے بڑھ کر وقت کے مجدّد تھے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعدپاکستان کے دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے، مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے یہ نظریہ عام کرنے کی کوشش کی کہ اس دور میں اسلامی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ حکومتیں لادینی اورسیکولر ہونی چاہییں۔مولانا مودودی نے اس دور میں پاکستان میں دستوری مہم چلا کر مکمل اسلامی نظام کے رائج ہونے کا نظریہ عام کیا۔ مولانا مودودی کے نظریات نے پوری دنیا مسلم دنیا میں ہلچل مچا دی۔

١٩٢٤ء میں مسلمانوں کی خلافت ختم کر کے صلیبیوں نے مسلم دنیاکو درجنوں راجوڑوں میں تقسیم کر کے اپنے پٹھو حکمران مسلم امت پر ٹھونس دیے ۔ یہ پٹھوحکمران اب تک صلیبیوں کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ اُس وقت برطانیہ کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی خلافت یعنی سیاسی حکومت قائم نہیں ہونے دی جائے گی۔جب الجزائر اور مصرمیں جمہوری طریقے سے جیت کر اسلامی سیاسی حکومتیں قائم کرنے کے کوشش کی گئی تو وہاں مسلم دنیا کی فوجوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرکے جمہوری حکومتوں کوختم کرادیا گیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے ہی لوگوں کے ہاتھوں ایسا کیا گیا۔ مولانا موددی کے افکار پوری مسلم دنیا میں تسلیم کر لیے گئے ہیں۔پوری مسلم دنیا کے عوام امریکی پٹھو حکمرانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی نظام قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

پاکستان بھی اسلام کے نام سے حضرت قائد اعظم کی لیڈر شپ کے اندر جمہوری جدو جہد کے ذریعے قائم ہوا تھا۔ ان شاء اللہ جمہوری طریقے سے ہی پاکستان میں اسلامی نظام حکومت بھی قائم ہو گا۔ اللہ نے قائد اعظم کو جلد بلا لیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد مولانا مودودی نے دوسرے اسلام پسند لوگوں کے ساتھ مل کر اسلامی نظام رائج کرنے سے پہلے دستور کو اسلامی بنانے کے لیے دستوری مہم چلائی تھی۔اسی مہم کے نتیجہ میں ہی ١٩٧٣ء میں پاکستان کا اسلامی آئین بنا۔ گو کہ آج تک اس آئین کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ اگر قائد اعظم کے وژن اور مولانا مودودی کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کر کے پاکستان میں اسلامی نظام قائم کر دیا جائے تو اللہ کے حکم کے مطابق آسمان سے رزق نازل ہو گا۔ زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔ ملک میں امن آمان ہو گا۔ دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔پڑوسی ملک پاکستان میں ناجائز مداخلت ختم کر دیں گے۔ نہ بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو گی۔ نہ مہنگائی ہو گی اور نہ ہی بے روز گاری ہو گی۔رسولۖ اللہ کی ایک حدیث کے مطابق جب تم میری لائی ہوئی شریعت نافذ کر دو گے تو کوئی زکوٰة لینے والا تمھیں نہیں ملے گا۔ یعنی سب خوش حال ہو جائیں گے۔ مولانا مودودی بیماری کے علاج کے لیے اپنے بیٹے کے پاس امریکا گئے۔ ان کا بیٹا امریکی کی ایک ہسپتال میں ڈاکٹر کے فرائض ادا کر رہاتھا۔ امریکا کی ہسپتال میں٢٢ستمبر١٩٧٩ء کو مولانا موددی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ لاہور میںمولانا مودودی کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ اللہ ان کی سعی کو قبول فرمائے ۔ان کو کروٹ کروٹ سکھی رکھے۔ جہاں تک مولانا مودودی کی اسلام کی خدمات کا تعلق ہے تو لاکھوں لوگ ان کے یاد کرائے گئے سبق سے مستفیض ہو کر اللہ کے کے دین کو قائم کرنے کی جدو جہد میں شریک ہوگئے۔ لوگ اپنی حد تک کوششیں کر رہے ہیں۔ جب اللہ کو منظور ہو گا اس مثل مدینہ ریاست، مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو جائے گا ان شاء اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان