آزادی مارچ: رہبر کمیٹی نے پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں کی تجویز پیش کر دی

Azadi March

Azadi March

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ ف) کے آزادی مارچ کے اسلام آباد میں پڑاؤ کا آج تیسرا دن ہے، دھرنے کے شرکاء پشاور موڑ پر ایچ 9 گراؤنڈ میں موجود ہیں۔

گزشتہ روز جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزير اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کیلئے 48 گھنٹوں کی مہلت دی تھی اور اس مہلت کا آج پہلا دن ہے۔

آج ہونے والے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے استعفے پر متفق ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفوں، ملگ گیر شٹر ڈاؤن اور ہائی ویز کو بلاک کرنے سمیت دیگر آپشنز زیر غور ہیں۔

فضل الرحمان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وزیراعظم نے دو روز میں استعفیٰ نہ دیا تو یہ اجتماع قدرت رکھتا ہے کہ خود وزیر اعظم کو گھر جا کر گرفتار کر لے البتہ ہم پُرامن لوگ ہیں چاہتے ہیں کہ پُرامن رہیں، اداروں کے ساتھ کوئی لڑائی یا تصادم نہیں،اداروں کا استحکام چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ادارے بھی غیر جانب دار رہیں۔

خیال رہے کہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے کہ اپوزیشن اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ میں جلسہ کرے گی اور وہاں سے آگے نہیں بڑھے گی۔

حکومت کی جانب سے جاری این او سی کے مطابق آزادی مارچ میں 18 سال سے کم عمر بچے شرکت نہیں کریں گے، مارچ قومی املاک کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچائے گا، آزادی مارچ کے شرکا سٹرکیں اور راستے بند نہیں کریں گے، شرکاء کسی سرکاری عمارت میں داخل نہیں ہوں گے۔

البتہ گزشتہ روز فضل الرحمان نے ڈی چوک کی جانب بڑھنے کا اشارہ دیا تھا جس کے بعد حکومتی کمیٹی نے اپوزیشن پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔

اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم خان درانی نے کہا ہے کہ اجلاس میں پارلیمنٹ سے مشترکہ طور پر استعفے کی تجویز زیر غور ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد عمر نے کہا ہے کہ اپوزیشن والے کل کا انتظار کیوں کررہے ہیں؟ آج ہی استعفے دیں اور میدان میں آئیں۔

اسد عمر نے مزید کہا کہ علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا ہے کہ وہ دوبارہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف الیکشن کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے دائرے میں بات کرنے والے ہیں ہم نے جواباً دھمکیاں نہیں دینی، مولانا فضل الرحمان کے بیان پر ہم عدالت جارہے ہیں، وزیراعظم کہ چکے ہیں کہ معاہدے کے مطابق یہ اپنا احتجاج کا حق استعمال کریں۔

پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نہ استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی قبل از وقت انتخابات ہوں گے— فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نہ استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی قبل از وقت انتخابات ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ استعفے کا مطالبہ احمقانہ ہے، اپوزیشن کا کوئی بھی غیر جمہوری مطالبہ تسلیم نہیں کر سکتے، اپوزیشن نے بلیک میلنگ کی تو مذاکرات نہیں کریں گے، وزارت داخلہ کو ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔

اجلاس میں کور کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کے اوچھے ہتھکنڈوں میں نہیں آئیں گے، اپوزیشن جب تک چاہے دھرنا دے، بلیک میل نہیں ہوں گے۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی رہائش گاہ پر ہوا جس میں آزادی مارچ سے متعلق مذاکرات کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔

اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے بنی گالا میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کر کے اپوزیشن کے مطالبات کے حوالے سے بریفنگ دی۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ و وزیردفاع پرویز خٹک کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفیٰ پر کوئی بات نہیں ہوگی جب کہ حکومت مولانا فضل الرحمان کے بیان کے خلاف عدالت جائے گی۔

وزیردفاع کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ایک معاہدہ کیا ہے اور آگے بڑھیں گے تو اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے، ہم نے معاہدہ کیا، اس پر کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گراؤنڈ کا انتخاب اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے خود کیا تھا، ہم نے ان سے کہا تھا کہ گراؤنڈ سے متعلق فیصلہ انتظامیہ کرے گی، ہمارے رہبر کمیٹی سے اب بھی رابطے ہیں لیکن گزشتہ روز جلسے میں جو تقریریں کی گئیں، اس پر ہمیں افسوس ہوا ہے۔ مزید پڑھیں

مذاکراتی ٹیم سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ساتھ حکومت نے معاہدہ کر کے انہیں جمہوری حق دیا لیکن اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم کا کہنا تھا کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتے، اور اپوزیشن کے غیر جمہوری اور غیر آئینی مطالبات تسلیم نہیں کر سکتے۔

ذرائع کا کہنا ہے عمران خان نے حکومتی کمیٹی کو رہبر کمیٹی سے بات چیت جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کے بعد آگاہ کیا جائےکہ اپوزیشن کون سا جمہوری حق مانگ رہی ہے۔

وزیراعظم نے اپوزیشن کی طرف سے استعفے کے مطالبے کو حماقت قرار دیتے ہوئے حکومتی کمیٹی کو ہدایت کی کہ اپوزیشن نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی تو مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔

وزیراعظم عمران خان نے وزارت داخلہ کو تیاری مکمل رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے پرفوری کارروائی کی جائے۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے گھر بنی گالہ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

وزیراعظم کے بنی گالہ کے گھر کے راستے میں مزید کنٹینرز پہنچا دیئے گئے ہیں اور ایف سی کی اضافی نفری بھی بنی گالہ میں تعینات کر دی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے رہنما پیپلز پارٹی اور رہبر کمیٹی کے رکن نیئر حسین بخاری سے ربطہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق صادق سنجرانی نے رہبر کمیٹی سے مذاکرات کے لیے وقت مانگا جس پر نیئر حسین بخاری نے کہا کہ مذاکرات کرنے سے متعلق دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد آپ کو جواب دوں گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو ٹیلی فون کر کے آزادی مارچ کے معاملات پر مذاکرات کے لیے بات چیت کی۔

ذرائع کا بتانا ہے اسد قیصر کا کہنا تھا معاملات مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم سے حل کیے جائیں جس پر شہباز شریف نے کہا کہ اپوزیشن نے مذاکرات کا راستہ بند نہیں کیا۔ دونوں رہنماؤں نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اقدامات پر اتفاق کیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے رہنما عوامی نیشنل پارٹی میاں افتخار کو بھی ٹیلیفون کر کے آزادی مارچ پر بات چیت کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی مولانا فضل الرحمان کی طرف سے حکومت کے مستعفیٰ ہونے کے حوالے سے دو روز کی مہلت کے بارے میں اعلیٰ سطح پر غور کیا گیا اور ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اہم فیصلے کئے گئے۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام نے بھی مارچ کے اگلے مرحلے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی طے کی۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت اس بات کا انتظار کرے گی کہ دو دن بعد مولانا فضل الرحمان کس لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں، اس کی روشنی میں حکومت اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے تمام سیکیورٹی اداروں پولیس، رینجرز اور ایف سی کو الرٹ کر دیا ہے جب کہ انتہائی اشد ضرورت میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے فوج کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت کی اعلیٰ شخصیات نے وزیر اعظم عمران خان کے استعفے پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور سیاسی طور پر بھر پور مقابلہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی بڑے ناموں کو شکست ہوئی جس کے فوراً بعد جے یو آئی ف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔

19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔