مذاق اُڑائے جانے پر موٹے لوگ زیادہ کھاتے ہیں، تحقیق

Fat People

Fat People

منی ایپلس: امریکا میں نوجوانوں پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر موٹے لوگوں کا مذاق اُڑایا جائے تو وہ مایوسی ہو کر زیادہ کھانے لگتے ہیں اور یوں مزید موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہ تحقیق یونیورسٹی آف منیسوٹا کے اسکول آف پبلک ہیلتھ، منی ایپلس میں پی ایچ ڈی کی طالبہ لارا ہوپر اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کو موٹا ہونے کے طعنے دیئے جائیں اور اس کے کھانے پینے پر مذاق اُڑایا جائے تو وہ شدید بددلی کا شکار ہوکر مزید کھانے لگتا ہے؛ اور نتیجتاً اس کے مزید موٹے ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ماضی میں بھی اسی نوعیت کی دیگر تحقیقات سے معلوم ہوچکا ہے کہ اگر کسی فرد کو اس کے موٹاپے کی وجہ سے طنز، طعنوں، مذاق یا کسی بھی قسم کے دوسرے امتیاز کا نشانہ بنایا جائے تو وہ اکیلے پن، ڈپریشن، خود آزاری (خود کو تکلیف پہنچانے) اور کھانے پینے میں بے اعتدالی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

البتہ، یہ تمام تحقیقات صرف ایسے امریکی سفید فام افراد پر کی گئی تھیں جو متوسط یا زیادہ آمدنی والے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی تحقیق میں مختلف نسلوں اور معاشی پس منظر والے نوجوانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

تازہ تحقیق میں 2010 سے 2018 تک جاری رہنے والے ایک سروے کے اعداد و شمار سے استفادہ کیا گیا جو منی ایپلس میں کیا گیا تھا۔

ان میں سے مختلف نسلی اور سماجی پس منظر رکھنے والے ایسے 1,534 زائد الوزن یا موٹے طالب علموں کا ڈیٹا کھنگالا گیا جن کی ابتدائی عمر 14 سال، جبکہ سروے کے اختتام پر 22 سال کے لگ بھگ تھی۔

مختلف سماجی عوامل اور طبّی پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ جن بچوں کو ابتدائی عمر میں اپنے وزن کی وجہ سے زیادہ مذاق اور طنز کا نشانہ بنایا گیا، وہ زیادہ کھانے کی عادت میں مبتلا ہوئے جبکہ جوان ہونے پر بھی وہ زائد وزنی اور موٹاپے کا شکار رہے۔

گندمی اور سیاہ فام، یعنی ’’رنگ دار‘‘ نسلوں کے علاوہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے ساتھ موٹاپے کے باعث امتیازی سلوک زیادہ دیکھا گیا۔

لارا ہوپر کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے موٹاپے کا مذاق اُڑائے جانے اور کھانے پینے میں بے اعتدالی کے درمیان ’’مضبوط تعلق‘‘ سامنے آیا ہے لیکن فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ سماجی بدسلوکی ہی بے تحاشا کھانے اور موٹاپے میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔

البتہ نوبلوغت (13 سے 18 سال کی عمر) ایک حساس عمر ہے جس میں چھوٹے چھوٹے منفی واقعات بھی ساری زندگی کے روگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے محتاط رویہ اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔

دوسری اہم بات جو اس تحقیق سے سامنے آئی، یہ ہے کہ موٹاپے میں مذاق اُڑائے جانے کا مسئلہ سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں رنگ دار نسلوں میں کہیں زیادہ ہے۔

’’اس طرزِ عمل پر قابو پانے کی ضرورت ہے،‘‘ لارا ہوپر نے کہا۔

نوٹ: یہ تحقیق ’’انٹرنیشنل جرنل آف اِیٹنگ ڈِس آرڈرز‘‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے۔