مستقبل کی نئی قیادت

Elections

Elections

تحریر : ایم سرور صدیقی

تبدیلی سرکار کے خلاف دمادم مست قلندر کرنے کے لئے بالآخر بلی تھیلے سے باہر آ گئی آصف زرداری نے تو برملا اس بات کا پیشگی اظہار کردیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کیلئے مستقبل کی نئی قیادت مریم نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور فضل الرحمن کے فرزند ِارجمند اسدالرحمن کریں گے ۔بہرحال مریم نواز کی دعوت پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جاتی عمرہ رائے ونڈ آمد دونوں رہنماؤں کے درمیان طویل مشاورت میں حکومت کے خلاف مشترکہ فیصلہ کن جدوجہد، دیگر اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطے اور بجٹ کی منظوری پر حکومت کوٹف ٹائم دینے پر اتفاق کرلیاگیا ماضی کی حکمران دونوں جماعتوںکی نئی قیادت نے اتفاق کیا کہ ملک میں ہر شعبہ زندگی زوال کا شکار ہے ملک کو اقتصادی تباہ حالی کی گہری دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے اورمعیشت کے تمام اعشاریے شدید بحران کی طرف جا رہے ہیں، پاکستان کو عالمی ساہوکا روں کے پاس گروی رکھ دیا گیا، قومی ادارے غیروں کے سپرد کرنے کے باوجود صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے، روپے کی قیمت مسلسل کم اور مہنگائی بڑھ رہی ہے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوںنے چیئرمین نیب کی یکطرفہ انتقامی کارروائیوں اور حکومتی ملی بھگت کے ساتھ اپوزیشن کے ساتھ ٹارگیٹڈ سلوک پر بھی غور کیا جبکہ نیب کے جعلی، بے بنیاداور من گھڑت مقدمات سے متعلق عدالتوں کا طرز عمل بھی زیر غور آیا۔ فضل الرحمان سے مشترکہ لائحہ عمل پر بھی بات چیت کی گئی اور اتفاق کیا گیا کہ موجودہ غیر نمائندہ حکومت عوام کے حقیقی مینڈیٹ کی ترجمانی نہیں کرتی۔

ہم نے وسیع تر ملکی مفاد میں دھاندلی زدہ انتخابات کے جعلی نتائج کو نظر انداز کیا لیکن ایک سال کے دوران حکومت کی نااہلی نے معیشت، قومی سیاست و انتظامی کارکردگی کو بھی تماشا بنا دیا ہے۔ جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان 2006 میں میثاق جمہوریت ایک اہم دستاویز ہے جسے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی جانبدارانہ رویہ ترک کریں، تمام پابند سلاسل قومی اسمبلی کے ارکان کے فوری طور پر پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔ اس موقعہ پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو سے ملاقات میاں نواز اور شہباز شریف کی اجازت سے ہو رہی ہے جس کیلئے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنماؤں کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔

اس ملاقات کاحکومتی حلقوںنے بڑے شدید رد ِ عمل کااظہارکیاہے و فاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ غریبوں کے لیڈرز پرائیویٹ جیٹ سے اترے اور کروڑوں روپیکی بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کر اربوں کی سلطنت میں پہنچے جہاں ڈیزائنر فرنیچر پر تشریف رکھتے ہی فرانس کے پانی سے ان کی تواضع کی گئی اس کے بعد سب نے مہنگائی اور غریبوں کے حالات پر گفتگو کی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی نے ویڈیو بیان میں کہا کہ سنا ہے آج پنجاب میں ریلو کٹوں کی ملاقات ہو رہی ہے، شاید ایک ریلو، کٹے سے مل رہی ہے، سمجھ نہیں آرہا۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اپنے ردعمل میں کہا رائے ونڈ ملاقات کے بعد اعلامیے میں عوام کی مشکلات اور مہنگائی کا ذکر ہوا لیکن مہنگائی کا ذکر کرنے والے خود سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے، کھانوں کی لمبی فہرست یہ بات سامنے لائی کہ آپ غریب کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ فادرز ڈے پر ابو بچاؤ تحریک کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، قوم کے حصے میں ایک راج کماری اور ایک کنیز ہے میرے خیال میں مخالفین ڈوبتی کشتیاں ہیں، ہمیں ان سے کوئی بھی سیاسی خطرہ نہیں جہاں مخالفین عوام کو گمراہ کریں گے ہم ان کا محاسبہ کریں گے۔

ایک اوررہنما کا دلچسپ تبصرہ تھا اپوزیشن عوام کو گمراہ کرنے ،چھوٹا پراپیگنڈا کرنے اور عوام کو سڑکوں پر لانے کی خواہش رکھتی ہے ، یہ خواہش اس کے سینے میں ہی دفن رہ جائے گی ، عوام ان کے ساتھ نہ باہر نکلیں گے اور نہ عوام اس وقت اپوزیشن کی کسی سوچ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ یہ 10سال اقتدار میں رہنے والی دونوں جماعتیں، 10ماہ کی حکومت سے حساب مانگ رہی ہیں اوروہ بھی اس چیز اور مسائل کا جو انہیں جماعتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ آج اگر عوام مشکلات کا شکار ہیں تو اس کی وجہ بھی دونوں جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہیں۔ اپوزیشن کی گٹھ جوڑ اور مْک مْکا کی سیاست کے تحت وہ حکومت کو بجٹ سے دور رکھنے کی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے ، ان کو یہ سمجھ آنی چاہئے کہ یہ آئینی ذمہ داری ہے ، بجٹ ملک کی ایک آئینی ضرورت ہے اور بجٹ پاس کرنا پارلیمنٹ کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ جو پارلیمنٹیرین بھی پارلیمنٹ کے اندر بیٹھا ہے اس کا فرض ہے کہ ملک، عوام ، دفاع اور قومی سلامتی کیلئے بجٹ ناگزیر ہے اور اس بجٹ کو پاس کرنا قومی ضرورت ہے جبکہ چیئرمین نیب نے ایک بارپھر کہاہے کہ بدعنوانی نہ ہوتی تو پاکستان کو قرض نہیں لینا پڑتا، واحد خواہش کرپشن سے پاک پاکستان ہے۔

بدعنوان عناصر کے خلاف قانون ضرور حرکت میں آئے گا اور جو لوٹ مار کرے گا اسے نیب کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان دنوں بہت سے سقراط اور بقراط پیدا ہوگئے ہیں جنہوں نے نیب کا قانون ہی نہیں پڑھا، نیب کالا قانون ہوتا تو سپریم کورٹ اسے ختم کردیتی، یہ ان لوگوں کے لئے کالا قانون ضرور ہے جو ڈکیتیوں میں مصروف ہیں، کالک ان ہاتھوں میں ہوتی ہے جو قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ نیب قانون کسی اور پر لاگو ہو تو ٹھیک اور جب آپ پر آئے تو یہ کالا قانون ہو جاتا ہے، جب تک نیب موجود ہے وہ اس قانون کے مطابق فرائض انجام دیتا رہے گا۔ چند دن پہلے ایک صاحب نے کہا کہ نیب منی لانڈرنگ کا ادارہ ہے، نیب اگر منی لانڈرنگ کرے گا تو وہ عوام کے لیے ہوگی، پیرس میں جائیداد بنانے کے لیے نہیں۔ وہ دور گزر گیا جب بدعنوانی اور کرپشن کی چشم پوشی کی جاتی تھی۔

بہرحال حالات کے تناظرمیں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تبدیلی سرکارکے خلاف دمادم مست قلندر ماضی کے حکمرانوں کی مفادات کی جنگ ہے جو وہ ہرقیمت پر جیتنا چاہتے ہیں خوفناک بات یہ ہے کہ مستقبل کی نئی قیادت کے سب کے سب، تمام کے تمام مہرے کرپٹ ہیں مریم نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز، مونس الہی، سلمان شہباز اور کئی حکمرانوں کے ولی عہد ان تمام کے خلاف نیب عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کا مستقبل خطرے میں ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ لوگ برسر ِ اقتدار آگئے تو پھر کیابنے گا ؟ حیرت تو ہمیں یہ دیکھ کربھی ہوتی ہے کہ راجہ ظفر الحق، قمرالزماںکائرہ، خورشید شاہ،سعدرفیق، فضل الرحمن ، چوہدری اعتزازاحسن ،یوسف رضا گیلانی، پرویزاشرف، شاہدخاقان عباسی جیسے رہنما جب بلاول بھٹو یا حمزہ شہباز اور مریم نواز کے پیچھے یا آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں تو خداکی قسم ایسی سیاست سے گھن آتی ہے ۔ آصف زرداری نے تو برملا اس بات کااظہارکرکے ہمارے پائوں تلے سے زمین کھینچ لی ہے کہ اب جمہوریت کیلئے مریم نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور فضل الرحمن کے فرزند ِارجمند اسدالرحمن کریں گے یعنی بالآخر بلی تھیلے سے باہرآگئی ہے اب غورکرنا ہوگا جس پاکستان کی قیادت ایسے لوگ کریں گے وہ پاکستان کیسا ہوگا ؟ اللہ ہم پر اپنا رحم فرمائے یہ سوچ سوچ کر ہی دل کانپ کانپ جاتاہے۔الحفیظ والامان

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی