گڈانی میں کھڑے آئل ٹینکر سے خطرناک مواد غائب کرنے اور ثبوت مٹانے کی اطلاعات

Gadani Oil Tanker

Gadani Oil Tanker

کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت اور بنگلادیش کے انکار کے بعد خطرناک مواد سے لدا بحری جہاز نام بدل کر گڈانی کیوں اور کیسے پہنچا ؟ کس کی مدد سے پہنچا اور اسے روکنا کس کی ذمے داری تھی؟ ان سوالوں کے جواب جاننے اور ذمہ داروں کے تعین کے لیے ڈائریکٹر جنرل پورٹ اینڈ شپنگ کی صدارت میں انکوائری کمیٹی کا اجلاس آج کراچی میں ہوگا۔

دوسری جانب گڈانی میں کھڑے آئل ٹینکر سے خطرناک مواد غائب کرنے اور ثبوت مٹانے کی اطلاعات ہیں۔

بھارتی اور بنگلا دیشی شپ بریکنگ انڈسٹری کے انکار کا صاف مطلب یہی تھا کہ بحری جہاز پر لدا مواد ماحولیات اور انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے، انٹرپول نے بھی خبردار کیا لیکن آئل ٹینکر ایم ٹی چیئریش نام بدل کر پاکستان اور پھر 30 اپریل کو گڈانی پہنچا دیا گیا۔

جیو نیوز نے 24 مئی کو اس بارے میں خبر دی تب اس کا اعلیٰ ترین سطح پر نوٹس لیا گیا اور وفاقی وزیر جہاز رانی علی زیدی نے وزیر اعظم کو تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ۔

ذرائع کے مطابق وفاقی اور بلوچستان حکومت کی دو الگ الگ انکوائری رپورٹس 10 جون جمعرات کو کراچی میں ڈائریکٹر جنرل پورٹ اینڈ شپنگ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔ اجلاس میں بلوچستان کے سیکرٹری ماحولیات، پی ایم ایس اے، نیوی ، کسٹمز ، ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے نمائندے شریک ہوں گے۔

دوسری جانب تحقیقات کے دوران ہی گڈانی میں متاثرہ آئل ٹینکر سے نکلے مواد سے بھرے ڈرم موقع سے غائب کردیے گئے ، ساحل پر بلڈوزر چلا کر ثبوت بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی، اس بارے میں صحافیوں کے سوالات پر ای پی اے بلوچستان کے ڈائریکٹر محمد خان آئیں بائیں شائیں کرنے لگے، ای پی اے کے یہی افسران اس سے پہلے جہاز کے مالک کو خطرناک مواد نکالنے اور آئل ٹینکر کو کاٹنے کی اجازت دے چکے تھے۔

تحقیقات کے دوران ای پی اے بلوچستان کے افسران اپنی مرضی سے اس پلاٹ کو سیل کرتے اور سیل کھولتے رہے جہاں جہاز کھڑا تھا، جیو نیوز نے جب ای پی اے کے ڈائریکٹر محمد خان سے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ زبانی احکامات پر پلاٹ کو سیل کیا جبکہ دیگر اداروں اور جہاز کے مالک کا کہنا ہے کہ انہیں پلاٹ سیل کرنے کا کوئی لیٹر نہیں دیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیل کرنے کے باوجود خطرناک مواد لانے والے آئل ٹینکر پر گارڈ تعینات نہیں کیے گئے اور خود اس معاملے کے فریق ای پی اے بلوچستان کے افسران اور دیگر غیر متعلقہ افراد آئل ٹینکر پر آتے جاتے بھی رہے۔

قانون کے تحت ٹوٹنے کے لیے آنے والا کوئی آئل ٹینکر گیس فری سرٹیفکیٹ کے بغیر پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتا، متاثرہ آئل ٹینکر کو روکنے کے اہم ذمہ دار ادارے پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی کے ترجمان سے متاثرہ آئل ٹینکر ایم ٹی چیئریش کے گیس فری سرٹیفکیٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو ترجمان نے اس کا جواب دینے سے انکار کردیا۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ آئل ٹینکر ایم ٹی چیئریش گیس فری سرٹیفکیٹ کے بغیر ہی پاکستان میں داخل ہوا جبکہ کاغذات میں آئل ٹینکر ایف ایس او راڈینٹ کے نام سے ایک سال پہلے لیا گیا گیس فری سرٹیفکیٹ جمع کرایا گیا۔