سائباں نہیں کوئی

Desert

Desert

چار سو اندھیرا ہے کہکشاں نہیں کوئی
پھر بھی راستہ اپنا بے نشاں نہیں کوئی
اے رہِ محبت کی خاک چومنے والو
چل پڑو کہ ساتھ اپنے کارواں نہیں کوئی
پوچھ تو کبھی ان سے زندگی کے رنج و غم
جن کے سر پہ دنیا میں سائباں نہیں کوئی
ان کا ظاہر وباطن سب عیاں ہے دنیا پہ
عشق کرنے والوں کا رازداں نہیں کوئی
بے حسی کا عالم ہے ایسا تیری محفل میں
بے زبان لوگوں کا ترجماں نہیں کوئی
جانے یہ حقیقت ہے یا کہ واہمہ کوئی
تیرے میرے رشتے کے درمیاں نہیں کوئی
وقت کی مسافت کے بے کنار صحرا میں
دھوپ ہے قیامت کی سائباں نہیں کوئی

زریں منور