جرمن شہری ایتھوپیا کو جلد از جلد چھوڑ دیں

Rebels

Rebels

ایتھوپیا (اصل میڈیا ڈیسک) افریقی ملک ایتھوپیا میں تیگرائے کا بحران مزید شدید ہو گیا ہے. وزیر اعظم ابی احمد نے باغیوں کے خلاف میدانِ جنگ میں قیادت کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ جرمنی سمیت دیگر مغربی اقوام نے اپنے شہریوں کو ایتھوپیا چھوڑنے کا کہا ہے۔

جرمن حکومت اور دوسری یورپی اقوام کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تیگرائے باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ملکی دارالحکومت ادیس آبابا پر قبضہ کرنے کے مزید قریب ہو گئے ہیں۔

ان کی اس پیش قدمی کے تناظر میں ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد نے اعلان کیا ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں باغیوں کے خلاف اپنی فوج کی اگلے محاذ پر قیادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ایتھوپیا کے دارالحکومت میں افراتفری اور شدید کشدگی و تناؤ کی کیفیت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ غیر ملکی راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش میں ہیں تو مقامی شہری محفوظ مقامات کا رُخ کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔

جرمن وزارتِ خارجہ نے ایتھوپیا میں مقیم اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پہلی فرصت میں ادیس آبابا کو چھوڑ کر دارالحکومت کے بول انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچیں اور اولین پرواز کے ذریعے ایتھوپیا کو چھوڑ دیں۔

تیگرائے باغیوں کے ہاتھوں حاضر سروس اور ریٹائر فوجیوں کو ہلاک کرنے کی میموریئل میں شریک ملکی فوجی

فرانس اور امریکا نے بھی اپنے شہریوں کو تلقین کی ہے کہ ایتھوپیائی سرزمین سے فوری طور پر نکل کر کسی محفوظ علاقے یا ملک میں پہنچ جائیں۔ غیرملکیوں کو ملک چھوڑنے کا مشورہ مشرقی افریقی ملک میں تیگرائے تنازعے میں غیرمعمولی شدت پیدا ہونے کے بعد دیا گیا ہے۔

اسی طرح اقوام متحدہ نے بھی اپنے عملے کے خاندانوں کو ایتھوپیا سے نکل جانے کا کہا ہے۔ عالمی ادارے نے ایتھوپیا کی سکیورٹی صورت حال پر انگلیاں کھڑی کر دی ہیں اور اپنے عملے میں کمی کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت عارضی طور پر عملے کے بعض اراکین کو دوسرے ممالک میں منتقل کیا جا رہا ہے۔

ہمسایہ ملک اریٹیریا کے ساتھ قدیمی سرحدی تنازعہ طے کرنے پر ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد کو امن کا نوبل دیا گیا تھا اور امن کے داعی وزیر اعظم نے ملک کے دفاع اور بقا کی جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے کا اعلان پیربائیس نومبر کو کیا تھا۔

ان کا بیان اس وقت سامنے آیا جب تیگرائے باغیوں نے ادیس آبابا سے دو سو بیس کلو میٹر کی دوری پر ایک شہر پر اپنا قبضہ مکمل کیا ہے۔ ابی احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کو بچانے کی عملی کوششیں آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔

جس پریس کانفرنس میں وزیر اعظم نے یہ بیان دیا، اس میں اعلیٰ حکومتی اہلکاروں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ ایسا بھی بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز ملکی دارالحکومت کے دفاع کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔

ایک مقامی تھنک ٹینک ادیس آبابا پیس اینڈ سکیورٹی بیورو کے سربراہ کینیا یاڈیٹا کا کہنا ہے کہ ملکی دارالحکومت پرسکون ہے اور انہوں نے افراتفری کی تمام خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔

تیگرائے تنازعے کی شروعات نومبر سن 2020 میں ہوئی تھی اور اس مسلح تنازعے کے دوران ہزاروں افراد موت کے منہ جا چکے ہیں۔ اب جنگی صورت حال میں تسلسل نے انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بیس لاکھ افراد بے گھری کے سامنا کر رہے ہیں اور تنازعاتی علاقہ اب قحط کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔