جرمن ہسپتالوں کے آئی سی یو میں داخل زیادہ تر مریض، بغیر ویکسینیشن کے

 German Hospitals

German Hospitals

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی میں شائع ہونے والے تازہ ترین اعداد و شمار سے انکشاف ہوا ہے کہ جرمنی کے ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت یونٹس میں داخل مریضوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی۔

جرمن ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت یونٹ آئی سی یو کی ایسوسی ایشن DIVI کی طرف سے تیرہ جنوری بروز جمعرات شائع ہونے والے اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ ہسپتالوں کے آئی سی یو میں اس وقت داخل مریضوں میں سے 62 فیصد کی ویکسینیشن نہیں ہوئی ہے۔ جرمنی میں اس وقت کُل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ایسے باشندوں پر مشتمل ہے جن کی کورونا سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن نہیں ہوئی یا جن کو کورونا حفاظتی ٹیکے نہیں لگے ہیں۔

انتہائی نگہداشت یونٹس کی صورتحال
نئے اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ آئی سی یو میں داخل مریضوں کے تقریباً 10 فیصد کو صرف جزوی طور پر کورونا کے خلاف ٹیکہ لگایا گیا ہے جبکہ 28 فیصد ویکسینیشن کی مکمل خوراک لے چُکے ہیں۔ جرمنی میں اب تک 72.3 فیصد افراد کو کم از کم دو ٹیکے لگ چُکے ہیں جبکہ 45 فیصد تیسرا یعنی بُوسٹر شاٹ بھی لگوا چُکے ہیں۔ ادھر 12 تا 17 سال کی عمر کے بچوں کو بوسٹر لگانے کی توثیق جمعرات تیرہ جنوری کو جرمنی کے ایک آزاد ویکسین ایڈوائزری پینل نے کر دی ہے۔

بچوں کے لیے بوسٹر
ماہرین نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ 12 تا 17 سال کی درمیانی عمر کے بچوں کو دوا ساز کمپنی فائزر اور اس کی جرمن پارٹنر کمپنی BioNTech کی طرف سے تیار کردہ شاٹس ان کی آخری ویکسینیشن کے کم از کم تین ماہ بعد لگایا جائے۔

جرمنی میں حالیہ ہفتوں میں اومیکرون ویریئنٹ کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں کورونا کیسز میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ متعدی بیماریوں کی تحقیق اور کنٹرول کے ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 81 ہزار 4 سو 17 نئے انفیکشنز کی تصدیق جبکہ 316 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

نورڈک ملک سویڈن کی صورتحال
سویڈن کو آئندہ دو ہفتوں کے دوران کورونا کیسز میں غیر معمولی اضافے کے خطرات کا سامنا ہے۔ ملکی صحت کی ایجنسی نے کورونا ویریئنٹ سے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال سے خبردار کیا ہے۔

نورڈک ملک سویڈن میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی موذی بیماری کووڈ انیس کے کیسز میں روزانہ غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے یہ تعداد 23 ہزار 8 سو 77 تک ریکارڈ کی گئی جس کی اصل وجہ ملک بھر میں کورونا کے نئے ویریئنٹ کا پھیلاؤ بنی۔

سویڈن نے حال ہی میں اپنےہاں کورونا کی وبا کے سبب لگی پابندیوں کو سخت تر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کام کرنے والے باشندوں کو زیادہ سے زیادہ ‘ ہوم آفس‘ یا گھر سے کام کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ صحت کے ادارے کے مطابق کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے تیزرفتار پھیلاؤ کو کم سے کم کرنے کی یہ ایک بنیادی کوشش ہے۔ کورونا پابندیوں میں سختی اور متعدد اقدامات کے باوجود جنوری کے آخر تک سویڈن میں اس وبا کی صورتحال میں خطرناک شدت کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

سویڈن کے ریاستی وبائی امراض کے ماہر انڈرس ٹیگنل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک اس وقت کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ میں اُسی تیزی سے اضافے کا سامنا کر رہا ہے جتنا کہ دیگر ممالک کر رہے ہیں۔ انہوں نے تاہم انتباہ کرتے ہوئے کہا،” یہ اضافہ کچھ عرصے تک جاری رہے گا۔‘‘ ٹیگنل نے ایک میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،” ہمارا صحت اور بہبود کے نظام پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔‘‘

سویڈن میں کووڈ انیس کے شکار افراد کی تعداد میں خطرناک اضافے ہوا ہے تاہم ان مریضوں کی ہسپتال میں داخلے کی شرح اس حساب سے نہیں بڑھی ہے، خاص طور سے اس شرح کا مقابلہ اگر کورونا کی سابقہ لہر سے کیا جائے تو۔

سویڈن صحت انتظامیہ کے مطابق ماضی کے مقابلے میں کورونا کی نئی لہر کے دوران اموات کی شرح نسبتاً کم ہے۔