جرمن داخلی انٹیلیجنس نے اے ایف ڈی کی خفیہ نگرانی شروع کر دی

Protests

Protests

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس سروس نے اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کی سیکسنی انہالٹ میں صوبائی شاخ کی خفیہ نگرانی کے فیصلے کی منظوری دے دی ہے۔

جرمن اخبار ‘مِٹل ڈوئچر سائٹنگ‘ نے بتایا ہے کہ جرمنی میں ‘تحفظ آئین کا وفاقی دفتر‘ کہلانے والی داخلی سیکرٹ سروس کی طرف سے اس اقدام کی منظوری کے بعد اب ‘الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ یا ‘متبادل برائے جرمنی‘ نامی انتہائی دائیں بازو کی اس سیاسی جماعت کے مشرقی صوبے سیکسنی انہالٹ میں تقریباﹰ چودہ سو ارکان کے باہمی رابطوں اور ان کی طرف سے رقوم کی منتقلی پر درپردہ نگاہ رکھی جا سکے گی۔

یہ فیصلہ اس جماعت کی سرگرمیوں سے متعلق کئی سال تک جمع کردہ شواہد کی بنیاد پر کیا گیا ہے، جن کے مطابق اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ یہ جماعت دراصل ایک ایسا گروپ ہے، جو مشتبہ طور پر انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی میں ملوث ہے۔

جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی بی ایف وی کے حکام کے مطابق یہ سیاسی جماعت خاص طور پر صوبے سیکسنی انہالٹ میں انسانی وقار پر حملوں، قانون کی حکمرانی کو مسترد کرنے اور عمومی طور پر غیر جمہوری رویوں کی مرتکب ہوئی ہے۔

‘متبادل برائے جرمنی‘ کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک کے مشرق میں واقع وفاقی صوبوں برانڈن بُرگ اور تھیورنگیا میں اس پارٹی کی صوبائی شاخوں کو پہلے ہی ‘مشتبہ‘ قرار دے کر ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

سیکسنی انہالٹ میں اے ایف ڈی کی خفیہ نگرانی شروع کرنے کا فیصلہ اس پارٹی کے لیے اس وجہ سے کوئی حیران کن پیش رفت نہیں ہے کہ اسی جماعت کے صوبائی پارلیمانی حزب کے ایک سرکردہ رکن پر پہلے ہی جرمن خفیہ اہلکار آنکھ رکھے ہوئے ہیں۔

اس کا سبب اس سیاستدان کا اس پارٹی کے انتہائی دائیں بازو کے ایک سابقہ دھڑے میں کردار بنا تھا۔ اس انتہا پسند دھڑے کے جرمنی میں نئے نازیوں کے ساتھ رابطے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھے۔

‘الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ نے سیکسنی انہالٹ میں گزشتہ علاقائی پارلیمانی الیکشن میں چوبیس فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس طرح اس جماعت کو مقامی سطح پر کافی زیادہ عوامی تائید حاصل ہے۔ یہ پارٹی صوبائی سطح پر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بھی ہے۔

سیکسنی انہالٹ میں اس پارٹی کے سربراہ اور صوبائی پارلیمنٹ میں اس کے حزب کے لیڈر نے اخبار ‘مِٹل ڈوئچر سائٹنگ‘ کو بتایا کہ ریاستی حکومت ان کی جماعت کی صوبائی شاخ کی قانونی نگرانی شروع کر کے دراصل اس پارٹی کو کمزور کرنا چاہتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ ملک کی داخلی سیکرٹ سروس کا مبینہ طور پر غلط استعمال بھی کر رہی ہے۔

جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔

جرمنی کی داخلی سیکرٹ سروس اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ انتہائی دائیں باز وکی اس سیاسی جماعت کی ملک گیر سطح پر بھی نگرانی شروع کر دی جائے۔ اے ایف ڈی اپنے سیاسی موقف میں شروع سے ہی ملک میں اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کرتی رہی ہے۔

رواں سال جرمنی میں قومی انتخابات بھی ہونا ہیں۔ ایسے میں اگر اے ایف ڈی کی ملک گیر سطح پر خفیہ لیکن ملکی آئین کے مطابق نگرانی شروع کر دی گئی، تو سیاسی طور پر یہ عمل اس جماعت کی ساکھ کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔

اس تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ‘متبادل برائے جرمنی‘ کے خلاف وفاقی سطح پر دو سال تک جو چھان بین کی گئی ہے، اس کے نتائج بھی ممکنہ طور پر عنقریب ہی شائع کر دیے جائیں گے، جو اس جماعت کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔

جرمنی میں گزشتہ عام الیکشن کے دوران اے ایف ڈی کو وفاقی پارلیمان میں چورانوے نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس طرح یہ پارٹی بنڈس ٹاگ کہلانے والی جرمن پارلیمان میں دوسری سب سے بڑی جماعت ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اس کو حاصل عوامی تائید میں کچھ کمی ہوئی ہے تاہم یہ اپنے لیے ووٹروں کی حمایت برقرار رکھنے کی کوششوں میں بھی ہے۔

اے ایف ڈی کاماضی میں اس جماعت کی صفوں میں بننے والا انتہائی دائیں بازو کا دھڑا اگرچہ اب تحلیل کیا جا چکا ہے، تاہم اس ‘فار رائٹ ونگ‘ کے سابقہ ارکان کی آج بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سابقہ دھڑے سے وابستہ افراد آج بھی اس جماعت کی داخلی سیاست میں اچھے خاصے اثر و رسوخ کے حامل ہیں۔