جرمن پولیس کے لیے انسداد نسل پرستی کی تربیت

Protest

Protest

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) محکمہ پولیس میں متعدد نسل پرستانہ واقعات سامنے آنے کے بعد ،جرمن پولیس اہلکاروں کے لیے برلن اور چند دیگر جرمن ریاستوں میں ایک خصوصی تربیت کا انتظام کیا گیا ہے۔ تاہم پورے ملک میں یہ تربیت ابھی تک لازمی نہیں ہوئی ہے۔

”آپ کی آنکھوں کا رنگ کیسا ہے؟ سیدا برمن کٹزال سوال کرتی ہے۔ ”براؤن یا بھورا‘‘ جواب ملتا ہے۔ ”او تب تو آپ ٹھیک ہیں۔‘‘

اس سوال و جواب کے ساتھ نسل پرستی کے سد باب کے لیے تربیتی پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔ سیدا برمن کٹزال نسل پرستی کے رجحانات کے بارے میں آگاہی کی تربیت فراہم کرنے والی ایک آرگنائزیشن کے لیے کام کرتی ہیں اور انسٹرکٹر ہیں۔ یعنی تربیت دہندہ۔ انہیں حالیہ مہینوں میں جرمن پولیس فورس کی طرف سے زیادہ سے زیادہ ٹیلی فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔

انسٹرکٹر کی حیثیت سے وہ بتاتی ہیں،”کسی سے اُس کے ظاہری حلیے کے بارے میں سوال کے ساتھ اگر گفتگو کی جائے تو یہ مخاطب شخص کو ایک دم حواس باختہ کر دیتا ہے، اُس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اس طرح باہمی بول چال کا انداز ہی بدل جاتی ہے۔ اچانک ماحول فیصلہ کُن بن جاتا ہے یا ایسا تاثر سامنےآتا ہے۔

نیلی آنکھیں یا بھوری آنکھیں اس بحث کو تربیت کا حصہ اس لیے بنایا گیا کہ اس کی مدد سے پہلے ایک تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ دراصل اکثر غلط بھی ثابت ہوتا ہے، تاہم اس سے نسلی امتیاز کے وہ عناصر سامنے آنے لگتے ہیں جو کچھ لوگوں میں چُھپے ہوتے ہیں۔ آنکھوں کی رنگت کو لے کر ایک تربیتی مشق کا تصور دراصل ایک امریکی استاد و محقق ‘جین ایلیٹ‘ نے 1968ء میں’ڈاسیورسٹی یا تنوع‘ کی تربیت کے ایک لازمی جُز کے طور پر پیش کیا تھا۔ اُس ٹیچر نے پولیس کی تربیت حاصل کرنے والے تمام افراد کو جو ایک کمرے میں موجود تھے، دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ بھوری آنکھوں اور نیلی آنکھوں والوں کے دو گروپ تشکیل دیے اور پھر بھوری آنکھوں والوں کو خصوصی مراعات دیں۔ دونوں گروپوں میں کچھ تصادم ہوا اور اس کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس والوں کو خود یہ احساس ہوا کہ اگر امتیازی سلوک برتا جائے اور وہ بھی نسلی بنیادوں پر تو کیسا محسوس ہوتا ہے اور یہ کہ استحقاق اور الگ تھلگ کر دینے کا طریقہ کار کس طرح سے اذہان یا انسانی نفسیات کو متاثر کرتا ہے۔

سیدا برمن کٹزال ترک نژاد جرمن ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کے لیے’بین الثقافتی تربیت‘ کے شعبے میں مہارت حاصل کی ہے اور وہ ہالینڈ اور بیلجیم میں نوجوانوں کی تربیت کے پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔ وہ جرمنی کے صوبے شلیسوگ ہولشٹائن میں پولیس میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کی جو ٹریننگ کرتی ہیں وہ ایک ہفتے پر محیط ہوتی ہے اور ہر روز 8 گھنٹے جاری رہتی ہے۔ اس تربیتی کورس کے دوران بنیادی اہمیت کے بہت سے موضوعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پولیس کس لیے ہوتی ہے، نسلی’پروفائلنگ‘ کیا ہے اور یہ کہ نسل پرستانہ تبصرے کرنے والے پولیس افسران کے ساتھ معاملات کیسے نمٹائے جائیں وغیرہ، پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ ڈوئچے ویلے کو انٹر ویو دیتے ہوئے سیدا برمن کٹزال نے کہا،”یہ ہمیشہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا، کیونکہ ہماری بات چیت پولیس کے ساتھ ہوتی ہے۔ نہ صرف جرمنی میں بلکہ ہر جگہ پولیس محکمے میں یکجہتی پائی جاتی ہے جس کے سبب یہ ایک دوسرے کو روکنے ٹوکنے میں بہت جھجک محسوس کرتے ہیں۔‘‘

جرمنی میں گزشتہ مہینوں کے دوران میڈیا کے ذریعے آئے دن سامنے آنے والے ایسے اسکینڈلز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا جن کا تعلق نسل پرستی، دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے پولیس افسروں کے ساتھ ہمدردی، جیسے اہم مسائل سے ہے۔ گزشتہ ہفتے برلن کے ضلع نوئے کوئلن میں انتہائی دائیں بازو کی ایک مجرمانہ سرگرمی سے متعلق تفتیشی کارروائی میں برلن پولیس کو ان کی غلطیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس کیس میں مثاثرین نے شکایت کی تھی کہ تین مرکزی مشتبہ مجرم نیو نازی تھے، جو پولیس افسروں پر طنزیہ جملے کس رہے تھے اور اس دوران انہیں پولیس سے کوئی ڈر و خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔

جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے 30 برس مکمل ہونے پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے بھی اپنے ’اپنے پدر وطن‘ کے دفاع کے لیے ریلی نکالی۔

اس سے ایک ہفتہ قبل صوبے نارتھ رائن ویشٹ فیلیا کے شہر ایسن کی پولیس کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پولیس نے جرائم میں ملوث عرب نسل کے افراد کے بارے میں ایسا کتابچہ شائع کیا جس میں مبینہ طور پر نسل پرستانہ رجحان کا تاثر مل رہا تھا۔ اخبار ڈی ویلٹ کے مطابق 20 صفحات پر مشتمل اس بروشیور میں پولیس کی تربیت حاصل کرنے والے کیڈٹس کو یہ سکھایا اور بتایا جا رہا تھا کہ ”عرب نسل کے ان گروپوں کے اراکین کتوں سے خائف ہوتے ہیں اور یہ پولیس کی خاتون اہلکاروں کو’اشتعال‘ کی ایک وجہ سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں پولیس کا موقف تھا کہ انہیں کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی جس کی بنا پر انہیں بھرتی ہونے والوں کی تربیت کے لیے اس دستاویز کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ یہ نئے مطالعے کی عکاسی کرنے والا ایک دستاویز ہے۔

اس سے زیادہ تشویشناک ایک سابق پولیس کیڈٹ سائمن نئیومیئر کا ڈوئچے ویلے کو دیا گیا وہ بیان ہے جس میں اس نے بتایا کہ اُس سے صوبے سیکسنی کی پولیس کا محکمہ اس لیے چھوڑ دیا کہ اسے وہاں اُس کے تربیتی کورس کے دوران کُھلی نسل پرستی دکھائی دے رہی تھی۔ سائمن کے بقول، ایک شوٹننگ انسٹرکٹر نے مجھ سے کہا،”ہمیں گولی چلانے کی تربیت پر خاص طور سے توجہ دینی چاہیے اور اس میں مہارت حاصل کرنی چاہیے کیونکہ بہت زیادہ پناہ گزین جرمنی آ رہے ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں جرمنی پولیس کا کہنا تھا ،” اس سارے معاملے میں کہیں بھی غیر پیشہ ورانہ رویے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔‘‘

صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی پولیس میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے پانچ بڑے واٹس ایپ گروپس یا چیٹ گروپوں کی نشاندہی کا معاملہ سب سے زیادہ قومی ہزیمت کا باعث بنا ہے۔ اس میں آڈولف ہٹلر کی تصاویر اور گیس چیمبرز میں پناہ کے متلاشیوں کی تصاویر شیئر کی گئی تھیں۔

اس واقعے کے بعد 29 افسران کو معطل کیا گیا، لیکن اس کے بعد بھی جرمنی کے قدامت پسند وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے پولیس میں نسلی تعصب سے متعلق ایک مطالعے کو روکنے کے بارے میں اپنا ذہن تبدیل نہیں کیا۔ انہوں نے استدلال کیا کہ نسلی پروفائلنگ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”پولیس گلے سڑے سیبوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سرگرم ہے۔‘‘