جرمن ریاستی انتخابات میں اے ایف ڈی کی کامیابی کا امکان

AFD

AFD

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) یکم ستمبر کو جرمن ریاستوں سیکسنی اور برانڈن برگ میں نئی اسمبلیوں کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان ریاستی اسمبلیوں کے نتائج جرمن سیاسی منظر پر دور رس اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

جرمنی کی دو مشرقی ریاستوں کے تقریباً ساڑھے چھ ملین ووٹرز نئی ریاستی اسمبلیوں کو منتخب کریں گے۔ ان ریاستوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اِس کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کو ملکی سطح پر تیرہ فیصد کی عوامی حمایت حاصل ہے۔ ان دونوں صوبوں میں بظاہر اسلام مخالف اور مہاجرین مخالف اس سیاسی جماعت کی عوامی پذیرائی میں بتدریج اضافے کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سیکسنی میں اس کی مقبولیت کی شرح پچیس فیصد اور برانڈن برگ میں اکیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔

ان دونوں ریاستوں میں چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کو اے ایف ڈی کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ سیکسنی میں دونوں جماعتیں اپنی انتخابی مہم میں مختلف وعدوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی جدوجہد میں مصروف رہی تھیں۔ برانڈن برگ میں عوامی ووٹ ہمیشہ سے منقسم ہوتے رہے ہیں اور امکاناً اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔

جرمن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سیکسنی اور برانڈن برگ میں نتائج کچھ بھی ہوں لیکن اتوار یکم ستمبر کی شام ‘اے ایف ڈی‘ کی سیاسی قوت کو مزید استحکام حاصل ہو گا۔ یہ اضافہ یقینی طور پر جرمنی کے سیاسی منظر پر گہرے اثرات کا حامل ہو گا اور مختلف حلقوں میں اسے واضح طور پر محسوس کیا جائے گا۔

ایسے اندازے بھی لگائے گئے ہیں کہ سیکسنی یا برانڈن برگ میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی صوبے میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت بننے کا یہ پہلا موقع ہو گا۔

ماہرین کے مطابق انتخابی نتائج کے بعد یہ اہم ہو گا کہ کون سی جماعت کس کے ساتھ حکومت سازی کی ڈیل طے کرے گی۔

سیکسنی میں دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے موجودہ چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جرمن سیاسی جماعت سی ڈی یو برسراقتدار ہے اور برانڈن برگ میں سابقہ حکومت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے ریاستی حکومت تشکیل دی تھی۔