جرمنی ميں ہر پانچ ميں سے ايک بچہ غربت ميں زندگی بسر کر رہا ہے

Germany Children

Germany Children

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) ايک مطالعے کے نتائج ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ جرمنی ميں ہر پانچ ميں سے ايک بچہ غربت ميں زندگی بسر کر رہا ہے۔ ماہرين کی مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا سے اس صورت حال ميں مزيد بدتری آئے گی۔

جرمنی کی بيرٹلزمان فاؤنڈيشن ک ايک تازہ مطالعے کے مطابق ملک بھر ميں تقريباً اٹھائيس لاکھ بچے غربت ميں زندگی بسر کر رہے ہيں۔ بدھ بائيس جولائی کو جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق حاليہ برسوں ميں حالات میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم کورونا وائرس کی عالمی وبا سے صورت حال دوبارہ بگڑ سکتی ہے۔ اس رپورٹ ميں غربت ميں پرورش پانے والے بچوں کی تعداد ميں کمی کو جرمنی ميں سماجی سطح پر اہم ترين چيلجز ميں سے ايک قرار ديا گيا ہے۔

واضح رہے کہ جرمنی ميں غربت ميں پروان چڑھنے والے بچوں کی تعداد ميں سن 2014 سے معمولی سی کمی ہوتی جا رہی ہے۔

تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت اٹھارہ برس سے کم عمر کے تمام بچوں اور نابالغوں ميں سے اکيس اعشاريہ تين فيصد غربت ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ غربت ميں پرورش پانے والے بچوں کی تعداد کے تعين کے ليے کئی چيزوں کا جائزہ ليا گيا۔ جرمنی ايک فلاحی رياست ہے اور جن افراد کی کوئی آمدنی نہيں، انہيں ‘ہارٹز فيئر‘ نامی ایک پروگرام کے تحت ماہانہ اخراجات کے ليے رقوم ادا کی جاتی ہيں۔ غربت ميں پرورش پانے والے بچوں کے تعين کے ليے ‘ہارٹز فيئر‘ وصول کرنے والے گھرانوں کے علاوہ ان اہل خانہ کا بھی جائزہ ليا گيا، جن کی ماہانہ آمدنی جرمنی ميں خاندانوں کی ماہانہ اوسط کی ساٹھ فيصد سے کم ہے۔

رپورٹ ميں يہ انکشاف بھی کيا گيا ہے کہ ايسی صورتحال ميں بڑے ہونے والے دو تہائی بچے طويل المدتی بنيادوں پر غربت ميں گزر بسر کرتے ہيں۔ جرمنی ميں کسی گھرانے ميں گاڑی کا نہ ہونا، گھر ميں اليکٹرانک مصنوعات کا نہ ہونا، چھٹيوں پر بيرون ملک نہ جانا اور سنیما وغيرہ نہ جا پانے کو غربت کی نشانياں سمجھا جاتا ہے۔

اس رپورٹ ميں متنبہ کيا گيا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا غربت ميں پلنے والے بچوں کی تعداد کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ ايسے بچوں کے والدين عموماً پارٹ ٹائم ملازمت کرتے ہيں۔ موجودہ وبا کے دور ميں يہی طبقہ سب سے زيادہ متاثر ہوا ہے۔ يہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ وبا کے عروج کے دوران عائد کردہ پابنديوں کے باعث گھروں پر تعليم حاصل کرنے والوں میں بھی غریب بچے مقابلتاً زيادہ متاثر ہوئے۔ عام طور پر ايسے بچوں کے پاس کمپيوٹر اور ديگر سہوليات کم ميسر ہوتی ہيں۔ ‘ہارٹز فيئر‘ وصول کرنے والے گھرانوں کے چوبيس فيصد بچوں کے پاس انٹرنيٹ اور کمپيوٹر فراہم نہيں۔

رپورٹ کے محققين کا کہنا ہے کہ بچوں ميں غربت کے انسداد کے ليے قانون ساز مناسب اقدامات نہيں کر رہے، بالخصوص کورونا کے دور ميں۔