جرمنی نے کورونا ویکسین کے پیٹنٹ حقوق ختم کرنے کا امریکی دباؤ مسترد کر دیا

Corona Vaccine

Corona Vaccine

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی نے واشنگٹن کی طرف سے کورونا ویکسین کے پیٹنٹ حقوق ختم کرنے کی امریکی تجویز رد کر تے ہوئے کہا ہے کہ یہ حقوق تحقیق اور ایجاد کے فروع کا اہم ذریعہ ہیں جنہیں برقرار رہنا چاہیے۔

امریکا نے بدھ کو یہ اعلان کیا کہ گیا تھا کہ حکومت ویکسینز کے مالکانہ حقوق کے خاتمے کی حمایت کرتی ہے تاکہ اس کی تیاری اور رسائی غریب ممالک کو بھی حاصل ہو سکے تاہم جمعرات کو جرمن حکومت نے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ،” امریکی حکومت کی اس تجویزکے ویکسین سازی کے عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ پیٹنٹ حقوق یا مالکانہ حقوق کا تحفظ دراصل ایجاد کا ایک ذریعہ ہے، جسے آگے بھی اسی طرح رہنا چاہیے۔‘‘

جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ ویکسین تک رسائی کو وسعت دینے میں ویکسین کے پیٹنٹ حقوق کے خاتمے کا نہیں بلکہ ویکسین بنانے کی صلاحیت اور اس کے کوالٹی کنٹرول کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

برلن حکومت کے مطابق جرمنی covax پیش قدمی کی مکمل حمایت کرتا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک کورونا ویکسین پہنچانا ہے۔ اس بارے میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزشن ‘ ڈبیلو ٹی او‘ میں بھی بحث جاری ہے۔کورونا ویکسین: منافع، مفادات اور عالمی صحت کے بیچ

جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ویکسینز کے پیٹنٹ حقوق کے خاتمے کا اعلان امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے ۔ ‘امریکی ٹریڈ‘ کی ترجمان کیتھرین تائی نے ڈبلیو ٹی او میں ہونے والے مذاکرات کی فوری طور پر حمایت کی ہے جبکہ امریکی ویکسین ساز کمپنی فائزر کے سربراہ البرٹ بورلا ویکسین کے پیٹنٹ کے خاتمے کے خلاف ہیں۔ ادھر یورپی کمیشن کی صدر اُرزلا فان ڈیئر لائن نے کہا ہے کہ وہ اس معاملہ پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

کورونا کی وبا نے عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او کو گزشتہ اکتوبر سے بہت مصروف کر رکھا ہے۔ تب جنوبی افریقہ اور بھارت نے علاج و معالجے کی ادویات اور ضروری طبی آلات کے پیٹنٹ حقوق کی چھوٹ کے لیے لابننگ کی تھی۔ انہیں امید تھی کہ ان کی پیداوار میں اضافے سے تمام لوگوں تک ویکسین کی رسائی ممکن ہو جائے گی۔

اپریل میں ڈبلیو ٹی او نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں لگائی جانے والی 700 ملین کورونا ویکسین کی خوراکوں کا محض 0.2% کم آمدنی والے ممالک تک پہنچ پایا ہے۔ اس عدم توازن کے مہلک نتائج سامنے آئے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال بھارت کی موجودہ صورتحال ہے۔

امریکا کا ہیلتھ کیئر اور بزنس کونسپٹ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او میں ویکسین کے پیٹنٹ حقوق کو ختم کرنے کی جدو جہد ایک عرصے سے جاری ہے اور یہ پہلی بار نہیں کہ اس موضوع کو زیر بحث لایا گیاو۔ لیکن اس بار امریکا کی طرف سے اس تجویز کا پیش کیا جانا امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ضرور تصور کی جا رہی ہے۔ تاہم اس پر عمل کے لیے ڈبلیو ٹی او کے تمام 164 ممبر ممالک کی رضامندی ضروری ہے۔

کورونا ویکسین کے پیٹنٹ حقوق کے خاتمے کے بارے میں فیصلے کا دار ومدار اس پر ہوگا کہ اس کے حق میں اور اس کے مخالف دونوں فریقین کس حد تک سمجھوتے کے لیے تیار ہیں۔

امریکی انتظامیہ کی طرف سے پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ اُن ممالک پر دباؤ میں اضافہ ہوگا جو پیٹنٹ حقوق کے تحفظ کا دفاع کرتے آئے ہیں، گو کہ وہ خود پر یہ الزام نہیں لینا چاہیں گے کہ وہ ویکسین کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔