جرمنی: داعش سے وابستہ تاجک نژاد شہری کو قید کی سزا

Police

Police

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) عدالت نے جس شخص کو سزا سنائي ہے ان پر دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر “اسلامک اسٹیٹ” کی سیل بنانے کا الزام تھا۔ وہ جرمنی میں اسلام پر تنقید کرنے والے ایک شخض کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی رکھتے تھے۔

ایک جرمن عدالت نے منگل 26 جنوری کو شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی ایک سیل قائم کرنے کی کوشش کرنے اورجرمنی میں مذہب اسلام پر نکتہ چینی کرنے والے ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا منصوبہ بنانے کے جرم میں ایک شخص کو سات برس قید کی سزا سنائی ہے۔

ڈسلڈروف کی عدالت کے ایک ترجمان نے چار ماہ سے جاری سماعت کے اختتام پر کہا کہ 31 سالہ مذکورہ شخص ووپرٹال کے رہائشی ہیں جنہوں نے بعض مقامی تاجک نژاد لوگوں کے ساتھ مل کر شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی ایک ذیلی سیل تشکیل دی تھی۔

جرمن پرائیویسی قوانین کے تحت ملزم کا اصل نام ظاہر کرنا درست نہیں ہے اور ان کا نام روسان بی بتایا گیا ہے۔ عدالتی ترجمان نے بتایا کہ انہوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک حملے کے لیے اپنی خود کار پستول سیل کے ایک دوسرے رکن کو دی تھی تاہم پولیس نے اس حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔

عدالت نے پایا کہ انہوں نے جہادی نظریات سے متاثر دیگر افراد کے ساتھ مل کر شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کے لیے پیسہ جمع کرنے کے مقصد سے 2019 میں البانیہ میں کرائے کے قتل کا بھی ایک منصوبہ تیار کیا تھا۔

حالانکہ جس شخص کو نشانہ بنانا تھا اس کی شناخت کے حوالے سے آخری موقع پر تذبذب پیدا ہوا اس لیے یہ حملہ نہیں ہو پایا۔ گزشتہ برس جرمنی میں ایک سرکاری وفاقی وکیل نے بتایا تھا کہ اس منصوبے کے تحت ایک البانوی تاجر کو قتل کرنا تھا۔

اس سیل سے وابستہ چار دیگر افراد کو گزشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا۔

سن دو ہزار چودہ میں ووپرٹال ہی میں پولیس کو اس وقت مداخلت کرنی پڑی تھی جب بعض سلفی مکتب فکر کے لوگوں نے زرد رنگ کے کپڑوں پر ”شریعہ پولیس” لکھ کر شہر کی گلیوں میں گشت کیا تھا۔

منگل کے روز عدالت کی جانب سے سزا سنانے سے پہلے ملزم نے یہ کہہ کر معذرت پیش کی، ”جو کچھ بھی ہوا اس پر انہیں شدید افسوس ہے۔”

وفاقی وکیل نے ان کے جرائم کے لیے ساڑھے آٹھ برس قید کی سزا کی درخواست کی تھی تاہم عدالت نے سا ت برس قید کی سزا سنائی ہے۔

عدالت نے پایا کہ روسان بی شام کو رقم بھیجنے میں بھی ملوث رہے تھے۔ وکیل دفاع نے ان کی جیل کی سزا کی معیاد پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا تاہم عدالت میں استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ بہت سے نکات پر شکوک و شبہات کا اظہار ضرور کیا۔

اگر استغاثہ یا پھر ملزم چاہیں تو اس کیس کو اعلی عدالت میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔