جرمنی،اٹلی، فرانس اور اسپین نے اسٹرازینکا ویکسن کے استعمال پر روک لگا دی

Corona - AstraZenevca

Corona – AstraZenevca

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی نے کووڈ انیس سے بچاؤ کے لیے ايسٹرا زینيکا ویکسین کا استعمال فی الحال عارضی مدت کے ليے روک ديا ہے، جس کے فوراً بعد اٹلی، فرانس اور اسپین نے بھی يہی فیصلہ کیا۔

جرمن وزارت صحت نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ايسٹرا زینيکا ویکسین کا استعمال پیر سولہ مارچ سے روک ديا ہے۔ اس کے فوراً بعد اٹلی، فرانس اور اسپین نے بھی اسی طرح کے اعلانات کیے۔ خون کے بہت چھوٹے چھوٹے لوتھڑے بن جانے کے خدشے کے مد نظر کئی دیگر یورپی ممالک پہلے ہی سے اس ویکسین کا استعمال روک چکے ہیں۔

جرمن وزارت صحت نے اسے ‘احتیاطی‘ قدم قرار ديا ہے۔اس نے کہا کہ یہ قدم قومی ہیلتھ ریگولیٹر پال ایہرلخ انسٹیٹیوٹ (پی ای آئی) کے مشورے کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے۔ وزارت صحت کے مطابق یورپی میڈیسین ایجنسی (ای ایم اے) اس ویکسین کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرے گی، جو فی الحال جانچ کے مرحلے میں ہے۔

جرمن وزارت صحت نے اپنے بیان میں کہا، ”جرمنی اور یورپ میں ٹیکے لگائے جانے کے بعد دماغ میں خون کے تھکّے بننے کی رپورٹوں کے باعث پی ای آئی مزید تفتیش کو ضروری سمجھتی ہے۔”

جرمن وزیر صحت زینس اسپان کا کہنا تھایہ فیصلہ پی ای آئی کے مشورے کے بعد کیا گیا ہے۔ یہ ”پروفیشنل فیصلہ ہے، یہ کوئی سیاسی فیصلہ نہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ ايسٹرا زینيکا کی ویکسین سے بہت چھوٹے چھوٹے لوتھڑے جمنے کا خطرہ کم ہے لیکن اسے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ”اعتماد کے لیے سب سے اہم چیز شفافیت ہے۔”

اسرائيل کے 50.2 فيصد شہريوں کو کورونا سے بچاؤ کے ٹيکے لگائے جا چکے ہيں جب کہ مجموعی آبادی کے 34.6 فيصد حصے کو کورونا کی دونوں خوراکيں مل چکی ہيں۔ ملک ميں مجموعی طور پر 7,535,543 ويکسين لگائے جا چکے ہيں۔ يہ اعداد و شمار ’نيو يارک ٹائمز‘ کے ويکسين ٹريکر سے حاصل کيے گئے ہيں۔

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ ان کا ملک بھی ویکسین کے استعمال کو معطل کر رہا ہے اور جب تک ای ایم اے کی طرف سے جائزے کی رپورٹ سامنے نہیں آتی، اس وقت تک یہ معطلی برقرار رہے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہو سکتا ہے یہ معطلی بہت مختصر وقت کے لیے رہے۔

دریں اثنا یورپی میڈیسین ایجنسی (ای ایم اے) نے ايسٹرا زینيکا ویکسین کے حوالے سے ماہرین کے تجزیوں کا جائزہ لینے کے لیے جمعرات کو ایک خصوصی میٹنگ طلب کی ہے۔

جرمنی، اٹلی، فرانس اور اسپین کے علاوہ یورپ اور دنیا کے کئی دیگر ممالک بھی خون کے بہت چھوٹے چھوٹے لوتھڑے بننے کے خدشے کے مدنظر ايسٹرا زینيکا ویکسین کے استعمال پر روک لگا چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ڈنمارک نے اس پر روک لگائی تھی اور ایسا کرنے والا وہ پہلا ملک بن گیا تھا۔ اس کے بعد ناروے، آئس لینڈ اور بلغاریہ نے بھی احتیاطی تدبير کے طور پر ویکسین کا استعمال ترک کر ديا تھا۔

ايسٹرا زینيکا ویکسین پر روک لگانے کا سلسلہ یورپ تک ہی محدود نہیں ہے۔انڈونیشیا نے بھی اس ویکسین کے استعمال کو موخر کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ دیگر ویکسینز کے مقابلے ميں سستا ہے اور اسے غریب ملکوں کی پسند قرار دیا جا رہا تھا۔

جن دیگر غیر یورپی ملکوں نے ايسٹرا زینيکا کی ویکسین پر روک لگائی ہے ان میں تھائی لینڈ اور کانگو شامل ہیں۔

برطانیہ، چیک جمہوریہ اور پولینڈ نے تاہم کہا ہے کہ ان کا فی الحال اس ویکسین کے استعمال پر روک لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

متعدد یورپی اور دیگر ملکوں کی جانب سے ايسٹرا زینيکا کی ویکسین کے استعمال پر روک لگائے جانے کے بعد کمپنی نے کہا ہے کہ ان کی ویکسین کی وجہ سے خون کے بہت چھوٹے چھوٹے لوتھڑے بننے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔

کمپنی نے ایک بیان میں کہا، ”سلامتی سب سے پہلے ہے اور کمپنی اپنی ویکسین کے استعمال سے سلامتی کے معاملے پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہے۔” کمپنی نے مزید کہا کہ یورپی یونین اور برطانیہ میں ٹیکہ لگوانے والے 1.7 کروڑ سے بھی زیادہ لوگوں پر اس کے اثرات سے متعلق اعداد و شمار کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے اور کسی بھی عمر کے گروپ یا صنف یا کسی مخصوص ملک کے شہریوں کے خون میں تھکّے جمنے، خون میں پلیٹ لیٹس کی مقدار کم ہونے کے خطرے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

برطانیہ میں نارتھ امبریا یونیورسٹی میں وائرولوجسٹ پروفیسر اسٹرگیوس ماسکوس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتوں کو ايسٹرا زینيکا ویکسین کے استعمال کو معطل کرنے کے اپنے فیصلوں کے بارے میں واضح پیغام دینا چاہيے۔ ان کے بقول سازشی نظریات اور گمراہ کن معلومات پھیلائے جانے کی وجہ سے بھی ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔

پروفیسر ماسکوس کا کہنا تھا کہ ایک کروڑ ستر لاکھ لوگوں نے ویکسین لگوائی ہے اس میں سے صرف 37 افراد میں خون کے تھکّے جمنے کی شکایت سامنے آئی۔ یہ صفر اعشاریہ 0002 فیصد کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا، ”اگر مجھے ايسٹرا زینيکا ویکسین کی پیش کش کی گئی تو میں اسے ضرور لگواؤں گا۔”

تاہم بعض دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ خون ميں بہت چھوٹے چھوٹے لوتھڑے بننا صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہيے۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹوبنگن ہاسپیٹل کے ڈائریکٹر پیٹر کریمزنر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”خون کے بہت چھوٹے چھوٹے لوتھڑے کافی خطرناک ہو سکتے ہیں اور اس بات پر منحصر کرتے ہیں کہ یہ کس جگہ جمے ہیں۔ اگر یہ جسم کے کسی غلط حصے میں پیدا ہو جائیں، تو ہلاکت خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے۔”