کیا جلد ہی جرمنی سے ملک بدریاں بڑھا دی جائیں گی؟

German Police

German Police

جرمنی (جیوڈیسک) رواں ماہ کے آغاز میں وفاقی جرمن پارلیمان اور تمام صوبوں کی نمائندگی کرنے والے وفاقی ایوان بالا نے ملک میں سیاسی پناہ کے نئے اور سخت تر قوانین کی منظوری دے دی تھی اور جلد ہی ان قوانین پر عمل درآمد بھی شروع ہو رہا ہے۔

ان نئے ضوابط کا مقصد جرمنی سے سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں تیزی لانا ہے۔ اس ضمن میں چند اہم سوالات اور ان کے جوابات۔

اب تک جرمنی سے کتنے افراد ملک بدر کیے گئے؟

وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق سن 2018 کے دوران ملک بھر سے سیاسی پناہ کے ساڑھے تئیس ہزار سے زائد مسترد درخواست گزاروں کو ملک بدر کیا گیا۔ بظاہر تو یہ تعداد بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے لیکن مذکورہ عرصے کے دوران اکتیس ہزار سے زائد پناہ گزینوں کو کئی وجوہات کی بنا پر ملک بدر نہیں کیا جا سکا تھا۔

ناکام ملک بدریوں کے واقعات میں سب سے بڑی وجہ ایسے افراد کے پاس سفری دستاویزات کا نہ ہونا بنی۔ علاوہ ازیں متعدد واقعات ایسے بھی سامنے آئے جن میں سیاسی پناہ کا مسترد درخواست گزار اپنی ملک بدری سے پہلے ہی حکام کے علم میں لائے بغیر کہیں ‘غائب‘ ہو گیا۔

وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔

رضاکارانہ وطن واپسی کے منصوبوں کے تحت جرمنی سے چلے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد بھی بارہ ہزار سے زائد رہی۔

گزشتہ برس کے اختتام تک جرمنی میں دو لاکھ چالیس ہزار غیر ملکی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر جرمنی سے چلے جانا چاہیے تھا اور ان میں سبھی تو نہیں لیکن اکثریت پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی تھی۔

نئے جرمن قوانین میں ملک بدری سے قبل فرار ہو جانے کے واقعات میں کمی لانے کے لیے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو ملک بدری سے قبل حراست میں لیے جانے کا عمل مزید آسان بنا دیا گیا ہے اور حراست سے رہائی کا فیصلہ بھی اب صرف عدالت ہی کر پائے گی۔

اب تک پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو خصوصی حراستی مراکز ہی میں رکھا جا سکتا تھا اور ملک بھر میں موجود ایسے خصوصی مراکز میں صرف پانچ سو افراد کو زیرحراست رکھنے کی گنجائش تھی۔ تاہم نئے اقدامات کے تحت اب ایسے افراد کو ملکی جیلوں میں بھی قید کیا جا سکے گا۔ یورپی قوانین کے تحت پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو عام قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے انہیں الگ بیرکوں میں رکھا جائے گا۔

پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو زیادہ سے زیادہ اٹھارہ ماہ تک زیر حراست رکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے جو لوگ اپنی شناخت کے حوالے سے جرمن حکام کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، انہیں بھی ‘تعاون پر مجبور کرنے کے لیے حراست‘ میں رکھا جا سکے گا۔ تاہم ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی ‘ملک بدری کا معقول امکان‘ ہونا ضروری ہے۔

جرمنی کا وفاقی ادارہ برائے مہاجرت و ترک وطن سیاسی پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلہ سناتا ہے۔ درخواست مسترد کر دیے جانے کی صورت میں اس کے خلاف عدالت میں نظرثانی کی اپیل کی جاتی ہے۔

عدالت بھی اگر درخواست مسترد کر دے اور جرمنی میں ‘عارضی رہائشی اجازت نامے‘ کی مدت بھی ختم ہو جائے تو ایسے شخص کو ایک خاص مدت کے دوران لازمی طور پر جرمنی سے چلے جانا ہوتا ہے۔ اگر اس مدت کے دوران وہ جرمنی سے نہ جائے تو اسے جبری طور پر ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

اگر پناہ کے متلاشی شخص کی درخواست پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہو اور اس دوران وہ جرمنی میں کسی جرم کا مرتکب پایا جائے، تو ایسی صورت میں اس شخص کو براہ راست بھی ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

ملک بدر کیے جانے کے لیے تاہم یہ ضروری ہے کہ مذکورہ شخص کی شناخت بھی معلوم ہو اور درکار سفری دستاویزات بھی موجود ہوں۔ پاکستان اور بھارت سمیت کئی دیگر ممالک جرمنی میں موجود اپنے شہریوں کو سفری دستاویزات فراہم کرنے کے حوالے سے جرمن حکام کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کرتے۔ برلن حکومت ایسے ممالک پر دباؤ بڑھا رہی ہے، تاہم جب تک عملی طور پر تعاون نہیں بڑھتا، جرمنی سے ملک بدریوں کی رفتار میں بھی نمایاں اضافہ نہیں ہو پائے گا۔

اصولی طور پر اگر کسی شخص کو اس کے آبائی وطن بھیجنے کی صورت میں یہ بات یقینی ہو کہ وہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے یا اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں اسے ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر بیمار افراد کو بھی ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔

سیاسی پناہ کے مسترد ایسے درخواست گزار جن کی حقیقی شناخت حکام کے علم میں ہو اور وہ تربیت (آؤس بلڈنگ) حاصل کر رہے ہو یا پھر کام کر کے اپنی روز مرہ زندگی کے اخراجات خود برداشت کر رہے ہوں، تو انہیں ‘ڈلڈُنگ‘ یا ‘عارضی برداشت‘ کا درجہ دیا جاتا ہے اور ایسی صورت میں انہیں بھی ملک بدری سے استثنا حاصل ہوتی ہے۔

کسی شخص کو اگر عام فلائٹ کے ذریعے ملک بدر کیا جا رہا ہو اور وہ اپنی ملک بدری کے خلاف شدید مزاحمت کر رہا ہو تو ایسی صورت میں جہاز کا پائلٹ ایسے شخص کو ساتھ لے جانے سے انکار کر سکتا ہے۔ اس طرح کے معاملات بھی اکثر دیکھنے میں آتے ہیں لیکن ایسی صورت میں ملک بدری اس وقت تو رک جاتی ہے لیکن منسوخ نہیں ہو جاتی۔